دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

کتابیں میری دوست، مطالعہ میرا شوق

کتابیں میری دوست، مطالعہ میرا شوق
عنوان: کتابیں میری دوست، مطالعہ میرا شوق
تحریر: عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی

کتابیں انسان کی وہ مخلص دوست ہیں جو کبھی بے وفائی نہیں کرتیں، جو کبھی ناراض نہیں ہوتیں۔ یہ کتابیں دنیاوی دوستوں کی طرح نہیں ہوتیں کہ جنہیں ساتھ رکھ کر بھی اپنائیت محسوس نہ ہو، اور جو ساتھ رہ کر بھی آپ کی اپنی نہ ہوسکیں بلکہ؛ یہ وہ دوست ہیں جو آپ سے تحفے نہیں مانگتیں، ناز نہیں دکھاتیں، بلکہ؛ ہمیشہ آپ کے قریب رہ کر آپ کو فائدہ ہی پہنچاتی ہیں۔ یہ وہ ساتھی ہیں جو آپ سے کچھ نہیں مانگتیں سوائے ایک چیز کے: آپ کی توجہ اور آپ کا وقت۔

اگر آپ نے ایک بار ان کو اپنی توجہ دے دی، تو یقین مانیے: یہ بار بار آپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار ہیں۔ کیوں کہ یہ وہ دوست ہیں جو مدد کرنے کے لیے کوئی بہانہ نہیں بناتیں؛ جب، جہاں، جس وقت بھی آپ کو ان کی ضرورت ہو، یہ آپ کے ساتھ موجود رہتی ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ بھی ان سے دوستی کریں، ان کے دوست بنیں، اور انہیں ساتھ رکھیں۔

یہ دوستی ہوگی مطالعہ کے ذریعے۔ پس مطالعہ کریں؛ کیوں کہ مطالعہ کے ایسے بے شمار فوائد ہیں جنہیں گنا نہیں جا سکتا۔ یہ انسان کی زندگی کا وہ لازمی حصہ ہے جو اسے علم، فہم، شعور، بصیرت اور کامیابی کی راہوں پر لے جاتا ہے۔ مطالعہ انسان کو اظہارِ خیال کا سلیقہ دیتا ہے، گفتگو میں نرمی، الفاظ میں چمک، اور سوچ میں گہرائی پیدا کرتا ہے۔ اسی کے ذریعے انسان اپنی زبان و بیان کو سنوارتا اور ایک باشعور، سمجھدار اور مہذب فرد بنتا ہے۔

آج کے دورِ فتن میں مطالعہ کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر ہم اپنے اسلاف اور بزرگانِ دین کی زندگیاں جاننا چاہیں تو ان تک پہنچنے کا ذریعہ صرف کتابیں ہیں۔ کتابوں کے مطالعے سے ان کی زندگی کو جانیں گے اور پھر مطالعہ ہی سے ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ علم کے دیوانے کیسے تھے، ان کی محبتِ کتاب کس درجہ خالص تھی، اور وہ کیسے اپنی زندگیاں مطالعے کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ کتنے بزرگ ایسے تھے جنہوں نے اپنی عمر کی ابتدا بھی کتابوں میں کی اور انتہا بھی انہی کے سائے میں پائی۔ اس دور میں بجلی بھی نہیں ہوتی تھی انہوں نے دن میں پڑھا، اور جب رات چھا گئی، تو چراغ و موم بتی جلا کر مطالعہ کیا۔ گرمی کی شدت ہو یا سردی کی سختی، وہ انہیں بھی محسوس ہوتی تھی لیکن نہ ان کے شوق میں کمی آئی نہ ان کے عزم میں۔ گویا؛ علم کی پیاس نے انہیں ہر حال میں مطالعہ پر ہی قائم رکھا۔

مگر افسوس: آج ہم اپنے زمانے میں غور کریں تو کسی سہولت کی تو کمی نہیں، مگر مطالعہ کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں کون سی سہولت میسر نہیں؟ ہر سہولت میسر ہے: گرمی میں پنکھا، کولر، اے-سی؛ ٹھنڈی میں ہیٹر، لیکن مطالعہ کا ذوق ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ بجلی ہے، روشنی ہے، آرام و آسائش کے تمام ذرائع موجود ہیں، مگر کتابوں کے لیے وقت کیوں نہیں؟ ہم کیوں مطالعہ سے دور ہیں؟

اس کا سب سے بڑا سبب ہے "موبائل فون"۔ آج لوگ سوشل میڈیا کی رنگینیوں میں کھو گئے ہیں؛ جھوٹی کہانیاں، فحش ویڈیوز، فضول ولاگ و شارٹس، ان سب نے ذہنوں سے سنجیدگی چھین لی ہے۔ وقت کے قیمتی لمحے ان تصویری دھوؤں میں گم ہو رہے ہیں۔ اور جب وقت ہاتھ سے نکل جائے گا، تو یہی لوگ پچھتائیں گے کہ موبائل نے زندگی برباد کر دی۔ حالانکہ موبائل اصلاً برا نہیں، وہ تو ایک آلہ ہے اسے آپ جیسے استعمال کریں، وہ ویسا ہی نتیجہ دیتا ہے۔ یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ کیسے استعمال کر رہے ہیں، اور کیسے ہونا چاہیے۔

آج ہر غریب سے غریب گھروں میں موبائل ہے، مگر جب کتابیں خریدنے کی بات آتی ہے تو ہم جیب خالی پاتے ہیں۔ حالانکہ اگر دل میں سچی لگن ہو تو آج کے زمانے میں تو علم تک رسائی بہت آسان ہے۔

اسی موبائل پر پی۔ڈی۔ایف کتابیں دستیاب ہیں، انہیں پڑھا جا سکتا ہے۔ اگر پڑھنے کا بھی وقت نہ ملے تو سنیے، اسی موبائل پر جیسے دوسری ویڈیوز دیکھتے ہیں، کچھ علمی اور اصلاحی مواد بھی سن سکتے ہیں۔ لیکن شرط یہی ہے کہ دل میں لگن ہو، علم کی شدید پیاس ہو۔ پھر جب دل چاہنے لگے تو مطالعہ خود آپ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔

لہٰذا آغاز کیجیے۔ چاہے موبائل ہی سے مطالعہ شروع کیجیے، آہستہ آہستہ دل اصل کتابوں کی خوشبو کا عاشق بن جائے گا۔ پھر آپ محسوس کریں گے کہ اب موبائل نہیں، صرف کتاب کا لمس سکون دیتا ہے۔ پھر چاہے پیسے کتنے ہی کم ہوں، آپ کی مطالعہ کی دنیا میں کتابیں ضرور ہوں گی، کیوں کہ عشقِ کتاب انسان کو خود مہیا کر دیا جاتا ہے۔

یہ میرا ذاتی تجربہ ہے: مجھے اپنے لباس و زیورات سے کہیں زیادہ کتابیں منگانا اور انہیں مکمل مطالعہ کرنا اچھا لگتا ہے، کیوں کہ "مطالعہ میرا جنون اور کتابیں میرا سکون ہیں"۔ اور میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مطالعہ کرنے والا کبھی تنہا نہیں رہتا حتیٰ کہ تنہائی میں بھی وہ تنہا نہیں ہوتا بلکہ جب وہ اکیلا ہوتا ہے، کتابیں اس کے دل کو بہلاتی ہیں، اور ان کے الفاظ نور بن کر دل کے اندھیروں کو روشن کر دیتے ہیں۔ کبھی ان کو سمجھ کر دیکھیے وہ آپ سے باتیں کرتی ہیں اور جو ان کے پاس ہے وہ سب آپ کو دیتی ہیں۔

مطالعہ کرنے والا جب کتابوں کی سیڑھی سے دھیرے دھیرے علم کے سمندر میں اترتا ہے، تو ہر صفحے پر اسے موتی ملتے ہیں۔ وہ ان موتیوں کو جمع کرنا شروع کرتا ہے، حتیٰ کہ علم کے سمندر میں مکمل طور پر غوطہ زن ہوتا ہے اور جب علم کے یہ گوہر اکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان کو اپنے الفاظ کے دھاگے میں حرف حرف پرو دیتا ہے۔ یوں اس کی محنت سے ایک بڑی اور روشن مالا تیار ہوتی ہے۔ ایسی مالا؛ جس کے موتی ایک دوسرے کو اتنی مضبوطی سے تھامے اور آپس میں اس قدر بندھے ہوتے ہیں، جن کا ٹوٹنا ناممکن ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس شخص نے کوئی عام موتیوں کو نہیں جوڑا ہوتا بلکہ؛ وہ اپنے وسیع مطالعہ کے سبب علم کے وسیع سمندر سے ان کو چن کر لاتا ہے جن میں کسی قسم کی خرابی کا کوئی امکان نہیں۔ تو مطالعہ کے اس سے انمول فوائد اور کیا ہو سکتے ہیں؟ اور اس سے بہتر مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟

سوچیے: اگر ایک کتاب کئی بار اتنا فائدہ دیتی ہے، تو کئی کتابیں انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہیں۔ کتابیں عقل کو جلا دیتی ہیں، دل کو سکون بخشتی ہیں، اور زندگی کو سمت دیتی ہیں۔

الغرض: کتابوں کا مطالعہ کریں، اپنے خیالات کو روشن کریں، علم میں اضافہ کریں اور اپنے ذہن کو تیز کریں۔ چند دنوں میں آپ خود محسوس کریں گے کہ علم کی روشنی آپ کے اندر اتر رہی ہے ان شاء اللہ۔

لیکن یاد رکھیں: مطالعہ ہمیشہ اچھی کتابوں کا کریں، اور صرف اہلِ سنت و الجماعت کے مصنفین کی ہی تحریروں کا مطالعہ کریں۔ تاکہ جو کچھ پڑھیں، وہ سچ، درست، اور عمل کے قابل ہو۔

سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

اللہ تعالیٰ ہم سب کو علمِ نافع، عشقِ کتاب، عادتِ مطالعہ اور عملِ صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔