دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

استاد: ماہتابِ دانش و آفتابِ بینش

استاد: ماہتابِ دانش و آفتابِ بینش
عنوان: استاد: ماہتابِ دانش و آفتابِ بینش
تحریر: محمد ظفر اللہ ضیاء رضوی، اتر دیناج پور، بنگال
پیش کش: بزم ضیاے سخن، اتر دیناج پور، بنگال

علم کی وادی بے کراں ہے اور معرفت کا آسمان لامحدود، لیکن ان دونوں کے مابین رابطے کا سب سے تابناک پل استاد کی ذات ہے۔ استاد محض ایک فرد نہیں، بلکہ وہ جوہرِ درخشاں ہے جو نسلوں کی قسمت کا تعویذ اور تہذیبوں کی تقدیر کا معمار ہے۔

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ [الجمعہ: ۲]

ترجمہ: وہی ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے، انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔

یہ آیتِ مقدسہ ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ تعلیم و تربیت اور تزکیہ و حکمت انبیاء کا بنیادی منصب رہا ہے، اور اسی منصب کی شعاعیں اساتذہ کے دامن میں منتقل ہوئیں۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنما بعثت معلما [سنن ابن ماجہ، ج: ۱، ص: ۸۴، حدیث: ۲۲۹، كتاب المقدمة، باب فضل العلماء والحث على طلب العلم]

مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

یوں معلوم ہوا کہ تدریس محض فن نہیں، بلکہ نبوی وراثت ہے۔ اگر تاریخِ اسلام کی رفعتوں پر نگاہ ڈالی جائے، تو ہر درخشندہ ستارہ کسی نہ کسی استاد کی شعاع کا پرتو نظر آتا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو حضرت حماد رحمہ اللہ جیسے مربی میسر آئے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کو امام مالک رحمہ اللہ کی درس گاہ نے نکھارا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ نے برصغیر میں جس علمی انقلاب کی بنیاد رکھی، اس کے پس منظر میں اساتذہ کی جگر سوز محنتیں کار فرما تھیں۔ یہ اساتذہ ہی تھے جنہوں نے مکتب کی چوکھٹ کو مدرسہ بنایا، مدرسہ کو جامعہ بنایا، اور جامعہ کو کارخانۂ انسانیت میں ڈھال دیا۔

استاد گویا قندیلِ ہدایت ہے، جو اپنی روشنی سے شاگرد کے اندھیروں کو مسخر کرتا ہے۔ وہ صیقل گر ہے، جو دل کی زنگ آلود سطح کو جلا کر آئینہ بناتا ہے۔ استاد ایک موج ساز سفینہ ہے، جو طلبہ کو بحرِ علوم کی طوفانی موجوں میں ڈوبنے سے بچا کر ساحلِ فہم تک پہنچاتا ہے۔ اگر علم ایک شجر ہے، تو استاد اس کا باغباں ہے۔ اگر علم ایک گہر ہے، تو استاد اس کا غواص ہے۔ اگر علم ایک بامِ بلند ہے، تو استاد وہ سیڑھی ہے، جس کے بغیر بلندی کا حصول ناممکن ہے۔

معاصر دور اور استاد کی اہمیت:

زمانۂ جدید میں جب تعلیم محض تجارت بن کر رہ گئی ہے اور تدریس پیشے کی شکل اختیار کر چکی ہے، وہاں حقیقی استاد وہی ہے جو درس گاہ کو محض معلومات کا ذخیرہ نہ بنائے، بلکہ دلوں میں نورِ بصیرت بھی پیدا کرے۔ آج کے مدرس کے لیے لازم ہے کہ وہ شاگردوں کو نہ صرف نصاب کا پابند بنائے، بلکہ اخلاق و کردار کا بھی پاسبان بنے۔

نصیحت برائے مدرسین:

  • تعلیم کو تزکیۂ نفس کے بغیر ناقص ہی سمجھیں، کیونکہ تزکیۂ نفس بھی تعلیم و تعلم کے ساتھ لازم ہے۔
  • طلبہ کے ساتھ شفقت و محبت کو اساس بنائیں۔
  • تدریس کو مشن اور عبادت سمجھ کر انجام دیں۔
  • مطالعہ و مشق کو ترک نہ کریں تاکہ فکر ہمیشہ تازہ رہے۔
  • اپنے وجود کو اس طرح ڈھالیں کہ شاگرد استاد کو دیکھ کر سیکھے

الغرض، استاد وہ چراغ ہے جو دوسروں کو روشن کرنے کے لیے خود کو جلا دیتا ہے۔ وہ ماہتابِ دانش ہے، جو شبِ جہالت کو اجالوں میں بدل دیتا ہے، اور وہ آفتابِ بینش ہے، جو شعور کی دنیا کو منور کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ استاد کے بغیر کوئی تمدن زندہ نہیں رہ سکا اور استاد کے سبب سے ہی ہر تہذیب اپنی معراج تک پہنچی۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔