| عنوان: | خطاب و وعظ میں غیر مستند احادیث کا استعمال |
|---|---|
| تحریر: | مولانا مہتاب رضا عطاری مدنی |
حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دینِ اسلام کا سرچشمہ اور اس کی دوسری بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کثیر مقامات پر احادیث کی تشہیر کا حکم ارشاد فرمایا اور اس کے فضائل بھی بیان فرمائے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نضر الله عبدا سمع مقالتي، فوعاها وحفظها وبلغها [جامع ترمذی، ج: ۵، ص: ۳۴، حدیث: ۲۶۵۸، كتاب العلم، باب: ما جاء في الحث على تبليغ السماع، مصطفی البابی]
اللہ تعالیٰ اس بندے کو خوش حال رکھے جس نے میرا ارشاد سن کر اسے خوب اچھی طرح یاد کیا اور اسے لوگوں تک پہنچا دیا۔
لیکن جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی تشہیر پر خوشحال رہنے کی بشارت دی، وہیں یہ بھی فرمایا:
من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار [صحیح مسلم، ج: ۱، ص: ۱۰، حدیث: ۳، مقدمہ مسلم]
جو میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اسی حدیث کے پیشِ نظر محدثینِ کرام احادیث کے معاملے میں بہت زیادہ احتیاط فرمایا کرتے تھے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غیر منقول، یعنی ایسی بات جو آپ نے نہ فرمائی ہو، آپ کی طرف منسوب نہ ہو جائے۔
صحابہ و تابعین کی احتیاطیں:
حضرت انس رضی اللہ عنہ (اصحابِ مکثرین میں سے) فرماتے ہیں:
إنه ليمنعني أن أحدثكم حديثا كثيرا أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من تعمد علي كذبا فليتبوأ مقعده من النار [صحیح بخاری، ج: ۱، ص: ۵۲، حدیث: ۱۰۸، كتاب العلم، باب: إثم من كذب على النبي صلى الله عليه وسلم]
مجھے تم سے بکثرت حدیثیں بیان کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان روکتا ہے کہ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنالے۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے والد محترم حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے عرض کرتے ہیں:
إني لا أسمعك تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يحدث فلان وفلان؟ [صحیح بخاری، ج: ۱، ص: ۵۲، حدیث: ۱۰۸، كتاب العلم، باب: إثم من كذب على النبي صلى الله عليه وسلم]
میں نہیں سنتا کہ آپ اتنی کثرت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتے ہوں، جیسا کہ فلان اور فلان بیان کرتا ہے۔
جواب میں فرمایا:
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من كذب علي فليتبوأ مقعده من النار [صحیح بخاری، ج: ۱، ص: ۵۲، حدیث: ۱۰۸، كتاب العلم، باب: إثم من كذب على النبي صلى الله عليه وسلم]
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا تو نہیں ہوا، لیکن میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے، اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔
تابعی عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں:
لقد أدركت في هذا المسجد عشرين أحد يحدث بحديث إلا ود أن أخاه كفاه الحديث [سنن الدارمي، ج: ۱، ص: ۱۰۰، حدیث: ۱۳۷، كتاب علامات النبوة]
میں نے اس مسجد میں ایک سو بیس (۱۲۰) صحابہ کو پایا، ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث بیان کرنے کو تیار نہ ہوتا، بلکہ ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی دوسرا بھائی بیان کرے۔
فی زمانہ بے احتیاطی:
اللہ اکبر! صحابہ اور تابعین حدیث کے بیان میں کتنی احتیاط کرتے تھے، مگر افسوس کہ آج کے واعظین و مقررین حدیث کے بیان میں سخت لاپرواہی اور بے اعتنائی کرتے ہیں، یہاں تک کہ بعض تو ایسی احادیث بھی بیان کر دیتے ہیں جو بلا سند یا موضوع ہوتی ہیں۔
وعظ و تقریر میں رائج چند موضوع اور غیر مستند روایات:
-
حضرت عمر کے بیٹے کے زنا کا واقعہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انصاف کو بیان کرتے ہوئے بعض مقررین حضرت عمر کے بیٹے کا زنا کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہیں، حالانکہ یہ واقعہ موضوع اور من گھڑت ہے، جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے فرمایا:
موضوع فيه مجاهد عن ابن عباس في حديث أبي شحمة ليس بصحيح [اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة، ج: ۲، ص: ۱۶۷، كتاب الأحكام والحدود، طبع: دار الكتب العلمية]
-
حضرت اویس قرنی کے دانت توڑنے کا واقعہ:
عشقِ رسول پر بیان کرتے ہوئے بعض مقررین حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب جنگِ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، تو جب یہ خبر اویس قرنی کو ہوئی، انہوں نے اپنے بھی دانت توڑ لیے، حالانکہ یہ واقعہ بھی موضوع ہے، جیسا کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ روایت بالکل جھوٹ اور افتراء ہے کہ جب حضرت اویس قرنی نے سنا کہ غزوہ احد میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، تو انہوں نے اپنے سب دانت توڑ ڈالے، اور انہیں کھانے کے لیے کسی نے حلوہ پیش کیا۔ [فتاویٰ شارح بخاری، ج: ۲، ص: ۱۱۵]
-
حضرت بلال کے شین و سین کا قصہ:
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكان من أفصح الناس، لا كما يعتقده بعض الناس أن شينه كان سينا، حتى أن بعض الناس يروي حديثا في ذلك لا أصل له، عن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم قال: سين بلال عند الله شين [البدایہ والنہایہ، ج: ۵، ص: ۳۵۵، فصل: أما خدمه]
آپ فصیح اللسان تھے، ایسا نہیں جیسا کہ کچھ لوگ گمان رکھتے ہیں کہ آپ شین کی بجائے سین ادا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کر کے ایک بے اصل حدیث روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کا "سین" کہنا اللہ کے نزدیک "شین" ہے۔
-
من لا شیخ له فشیخه الشیطان:
اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ فتاویٰ رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں:
زید نے جو یہ بیان کیا کہ "جس کا کوئی پیر نہیں، اس کا پیر شیطان ہے"، کلامِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کا نشان نہیں، ہاں قولِ اولیاء ہے۔ [فتاویٰ رضویہ، ج: ۲۱، ص: ۴۸۲]
-
کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت کا واقعہ:
ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر روزانہ کوڑا پھینکا کرتی تھی، جسے مقررین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو بیان کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں، حالانکہ یہ واقعہ کسی بھی معتبر اور مستند حدیثی ماخذ میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا اس واقعے کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے موضوع پر سینکڑوں صحیح احادیث موجود ہیں۔
پیارے قارئین! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کئی مشہور واقعات و روایات درحقیقت موضوع یا غیر مستند ہیں، جنہیں بلا تحقیق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ جبکہ ترغیب و ترہیب کے لیے صحیح اور معتبر احادیث میں کافی مواد موجود ہے۔ لہٰذا واعظین، مقررین، بلکہ تمام لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ ہم صرف وہی احادیث بیان کریں جو صحیح اور معتبر کتبِ حدیث میں مذکور ہوں۔
