| عنوان: | اے ارض فلسطین ہم شرمندہ ہیں |
|---|---|
| تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
| پیش کش: | ادارہ لباب |
اے ارضِ فلسطین! ہم شرمندہ ہیں! تیرے شکستہ و خستہ وجود کے رستے لہو کے ہر قطرے سے، فضا میں گونجتی تیری چیختی آہوں سے، تیری سسکتی اور تڑپتی لاشوں سے، تیری ریزہ ریزہ وجود کی کرچیوں سے پھوٹنے والی خاموشی کے شور سے، تیری دم توڑتی سانسوں سے، تیرے اس کٹے پھٹے اور خراش زدہ خدوخال سے جن کا ہم مرہم نہ بن سکے، ان تمام ایام سے جو تجھ پر قیامت بن کر ٹوٹے، ان شب و روز سے جنہوں نے بلاخیز آزمائشوں سے تجھے چکنا چور کر دیا۔
ہاں، ہم شرمندہ ہیں! اے ارضِ فلسطین! ہم شرمندہ ہیں! ان عزائم سے جو اپنے سینوں میں دم توڑ گئے، ان خواب بُنتے خیالوں سے جنہیں تعبیر کا موقع میسر نہ آ سکا، ان حسرتوں سے جو کہانیاں بُنتے بُنتے راکھ ہو گئیں۔
ہم شرمندہ ہیں ان بچوں کی چیخوں سے، ہمہ دم سروں پر مسلط موت کے خوف نے جن کے معصوم وجود کو قاش قاش کر کے رکھ دیا، ان ماؤں کی لرزتی دعاؤں سے جن کا آنچل لہو سے تر ہے، ان ہاتھوں سے جو اپنی اولاد و اقارب کی لاشوں کو اٹھائے بےخودی میں ادھر اُدھر بھٹک رہے ہیں، ان قدموں سے جو تدفینِ نعش کے لیے دو گز زمین کی جستجو میں سرگرداں ہیں، ان آنکھوں سے جن میں آنسوؤں کی جگہ لہو کے قطرے قطار لگائے ہوئے ہیں، ان لبوں سے جن پر تشنگی جم کر رہ گئی ہے۔
اے ارضِ فلسطین۔۔۔ ہم شرمندہ ہیں! گرد و غبار سے اٹے ان گھروں سے جن میں خوف و ہراس کا اندھیرا پَسرا ہوا ہے، اس ہنستے کھیلتے آنگن سے، صحراء کی ویرانی جس کا مقدر ہو چکی ہے، ان دیواروں سے جن پر کبھی چاندنی کا رقص ہوتا تھا، آج لہو کی سرخی ان پر نقش ہو چکی ہے، تیری گلیوں میں بکھری ہوئی معصوم حسرتوں سے، ان چھتوں سے جنہیں شعلوں کے دھوئیں اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ ہاں، ہم شرمندہ ہیں!
ہم شرمندہ ہیں اس بے حسی سے جو دنیا پر چھائی ہوئی ہے، اس اندھے پن سے جو حق دیکھنے سے قاصر ہے۔
اے ارضِ فلسطین۔۔۔ ہم شرمندہ ہیں! اپنے مردہ ضمیر سے جسے تیرا چیختا وجود بیدار نہ کر سکا، ہمارے لبوں پر پسری گہری خاموشی سے جسے تیرے زخموں کا شور آواز اُٹھانے پر مجبور نہ کر سکا، اس بے بسی سے جو ہمارے ضمیروں پر مسلط ہو چکی ہے، اس لاچارگی سے جس نے ہمارے پاؤں زنجیروں سے جکڑ دیے ہیں، اس معذوری سے جس نے ہمیں مہر بہ لب کر دیا ہے، ہماری ان دعاؤں سے جو محض آواز بن کر رہ گئیں۔
ہم شرمندہ ہیں کہ تیری آزادی کی شمع جلا نہ سکے، ہم تب تک کرب زدہ رہیں گے جب تک تیری آہیں مدھم نہیں پڑ جاتیں، جب تک تیرے کرب و ضرب کا سلسلہ تھم نہیں جاتا۔
اے ارضِ فلسطین! ہم تب تلک شرمسار رہیں گے، جب تک تیرے درد کی ہر آہ، تیرے ظلم کی ہر داستان، تیرے لہو کا ہر قطرہ ہماری رگوں میں بے چینی و اضطراب نہ بنے۔ بے شک تیرا درد ہمارا کرب ہے اور تیری آزادی ہی ہماری بے بسی اور شرمساری کا واحد کفارہ ہے!
