دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

موجودہ دور کے فتنوں میں خواتین کی ذمہ داریاں

عنوان: موجودہ دور کے فتنوں میں خواتین کی ذمہ داریاں
تحریر: عالیہ فاطمہ انیسی
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد


زمانہ جس برق رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے، اسی رفتار سے فتنے اور گمراہیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ آج مسلمان ہر طرف سے آزمائشوں میں گھرا ہوا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان فتنوں کے بارے میں ہمیں پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ وہ رات کے اندھیروں کی طرح آئیں گے کہ انسان کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملے گا۔ ان فتنوں کا سب سے زیادہ نشانہ عورت کو بنایا گیا ہے کیونکہ عورت معاشرے کی اصل معمار ہے۔


حدیث شریف میں ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته... والرجل راع على أهل بيته، والمرأة راعية على بيت زوجها وولده، فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته (صحیح بخاری: 4904)

ترجمہ: تم سب نگہبان ہو اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہو۔ مرد اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اولاد پر نگہبان ہے۔ پس تم سب نگہبان ہو اور تم سب اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہو۔

یہ حدیث عورت کی اصل ذمہ داری واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے گھر کی محافظ ہے۔ اس کے قول و فعل سے ہی گھر کی فضا بنتی ہے۔ اگر وہ نیک ہوگی تو گھر نیک بنے گا، اور اگر وہ غفلت کرے گی تو پورا گھر فتنوں میں ڈوب جائے گا۔

اس وقت خواتین کئی طرح کے فتنوں میں گھری ہوئی ہیں۔ ایک طرف فیشن پرستی اور بے پردگی عام ہو رہی ہے، دوسری طرف مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ہماری اصل پہچان کو مٹا رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے بے جا استعمال نے وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ عورت کو اپنی اصل ذمہ داریوں سے غافل کر دیا ہے۔ گھروں کے نظام میں بگاڑ بھی اسی بے راہ روی کا نتیجہ ہے۔ عورت جسے اسلام نے گھر کی زینت اور خاندان کی معمار بنایا تھا، آج بازاروں اور نمائش گاہوں کی رونق بنا دی گئی ہے۔ ان حالات میں سب سے زیادہ ذمہ داری خواتین پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے ہاتھوں میں نسل نو کا مستقبل ہے اگر وہ اپنی ذمہ داریاں سمجھ کر ادا کرے تو فتنے کے اس طوفان میں بھی گھر کو دین کا قلعہ بنایا جا سکتا ہے۔

عورت کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنی رعیت یعنی اپنے گھر، بچوں اور خاندان کی فکر کرے۔ ان کی صحیح تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے، ان کو دین سے جوڑے، اور ایسے اسباب پیدا کرے کہ وہ زمانے کے بڑھتے ہوئے فتنوں سے محفوظ رہ سکیں۔

ایمان کی حفاظت

سب سے پہلی اور سب سے بڑی ذمہ داری اپنے اور اپنی نسل کے ایمان کی حفاظت ہے۔ آج جبکہ ارتداد کا فتنہ تیزی سے پھیل رہا ہے، اور ہماری نوجوان بیٹیاں ایمان جیسی قیمتی متاع کو اغیار کے بہکاوے اور جھوٹی آزادی کے جال میں کھو رہی ہیں، یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ یہ وہ سنگین مسئلہ ہے جس میں امت مسلمہ خصوصاً خواتین کو اپنی ذمہ داری کا بھرپور ادراک کرنا ہوگا۔

ایک عورت پر بحیثیتِ ماں اپنی اولاد کے، بحیثیتِ معلمہ اپنی شاگرداؤں، اور بحیثیتِ مصلحۂ قوم اپنی قوم کی بیٹیوں کی حفاظت کا ذمّہ ہے۔ اور اس ذمّہ داری کا احساس قولی طور پر بہت ہوا اب عملی طور پر بھی اپنے قدم آگے پڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر عورت بیدار ہو جائے تو پورا معاشرہ بیدار ہو جاتا ہے۔ اس لیے خواتین پر لازم ہے، دینی اجتماعات کا اہتمام کریں، دینی تعلیم عام کریں، اور مغربی تہذیب کے فتنوں کو اپنے باعمل کردار سے رد کریں۔ یاد رکھئے! ایمان دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے۔ اگر یہ دولت چلی گئی تو دنیا کی ہر ترقی اور ہر کامیابی بے وقعت ہے۔ اس لیے عورت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور اپنی نسل کے ایمان کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرے۔

عزت و عصمت کی حفاظت

اسلام نے عورت کی اصل پہچان حیا کو قرار دیا ہے۔ حیا عورت کا سب سے قیمتی زیور ہے اور پردہ اس کی عزت و عصمت کا قلعہ۔ عورت کی بربادی کا پہلا زینہ بے حیائی ہے، اور اس حقیقت کو نہ صرف قرآن و حدیث نے واضح کیا بلکہ تاریخ بھی اس کی گواہ ہے کہ جس قوم کی عورت نے حیا کو چھوڑ دیا، اس قوم کی بنیادیں ہل گئیں۔

لیکن آج مغربی تہذیب نے ایک خطرناک سازش کے تحت عورت کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ پردہ اس کے لیے قید ہے، میڈیا اور مغربی کلچر نے پردہ کو ترقی کی دشمن اور عورت کی آزادی کے خلاف دکھایا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ زہر آہستہ آہستہ ہماری مسلمان بیٹیوں اور بہنوں کے ذہنوں میں بھی سرایت کر گیا ہے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے پردے میں رہتے ہوئے عورت کو ہر جائز میدان میں قدم رکھنے کی اجازت دی ہے۔ چاہے وہ تعلیم ہو، ملازمت ہو، یا کسی بھی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار ہو، اسلام نے عورت کو منع نہیں کیا، بس یہ شرط رکھی کہ وہ اپنی عزت و عصمت کو محفوظ رکھے۔ پردہ عورت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بلکہ اس کی عزت کا محافظ ہے۔

آج کے حالات میں ضروری ہے کہ خواتین خود اپنے عمل سے یہ بات دنیا کو دکھائیں کہ پردہ کوئی قید نہیں، بلکہ یہ آزادی اور عزت کی ضمانت ہے۔ ایک باپردہ لڑکی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہے، ایک نقاب پوش خاتون بڑے عہدے پر بھی فائز ہو سکتی ہے، اور ایک باحیا عورت معاشرے کی بہترین مصلح بھی بن سکتی ہے۔ اصل قید تو وہ ہے جو مغربی تہذیب نے عورت پر ڈال دی ہے جسم کی نمائش، خواہشات کی غلامی اور آزادی کے نام پر بے راہ روی۔

سوشل میڈیا کا صحیح استعمال

یہ دور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔ آج ہر گھر میں موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی رسائی ہے اگر اسے غلط استعمال کیا جائے تو یہ سب سے بڑا فتنہ بن سکتا ہے، اور اگر مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ سب سے بڑی نعمت بھی ہے۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے بچے، جنہیں ابھی صحیح شعور بھی نہیں آتا، موبائل اور گیمز کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کا وقت، ان کی تعلیم، اور ان کا بچپن اس اسکرین کی نذر ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی ذمہ داری عورت پر آتی ہے، کیونکہ عورت ہی ماں بن کر نئی نسل کی تربیت کرتی ہے۔ اگر ماں اپنے بچے کو موبائل دے بھی تو وہ صرف کھیل تماشے یا فضول مصروفیات کے لیے نہ دے، بلکہ اس میں اچھی چیزیں دکھائے، دینی اور تعلیمی مواد فراہم کرے تاکہ بچے کی ذہنی تربیت درست رخ پر ہو۔

سوشیل میڈیا نے بے حیائی کے سارے دروازے کھول دئیے ہیں لہٰذا خواتین پر لازم ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال صرف ضرورت کے تحت کریں اور وہ بھی بڑی احتیاط کے ساتھ۔ دینی کام، تعلیم اور ضروری روابط تک محدود رہیں۔ غیر ضروری ایپس، غیر ضروری روابط اور غیر محرم افراد سے بات چیت سے مکمل پرہیز کریں۔ یاد رکھیں کہ شیطان ایک چھوٹی دراڑ سے داخل ہو کر پورے گھر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں اور اپنے ماتحت افراد کو سوشل میڈیا کے ان فتنوں سے بچائیں، اور اپنے عمل سے یہ دکھائیں کہ اصل کامیابی یہی ہے کہ ہم جدید سہولتوں کو اپنی دین داری اور حیا کے تابع رکھیں، نہ کہ اپنی حیا کو ان سہولتوں کی قربانی کر دیں۔

یہ (ایمان، پردہ، سوشل میڈیا) وہ بنیادی ستون ہیں جن کی وجہ سے آج کا معاشرہ ہر طرح کے فتنوں کا شکار ہو رہا ہے۔ اسی غفلت نے نئی نسل کو بربادی، بے راہ روی اور بے حیائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ موجودہ دور کے فتنوں میں عورت کی ذمہ داری دو چند ہو گئی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ خواتین آگے بڑھیں اور عملی طور پر ان تمام فتنوں کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر عورت اپنی ذمہ داری کو پہچان کر ایمان کی حفاظت کرے، پردے کو مضبوطی سے تھامے اور سوشل میڈیا کو دین و اخلاق کے تابع کر لے، وہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ پورے معاشرے کو فتنوں کے طوفان میں ڈوبنے کے بجائے نجات کی راہ پر لا سکتی ہے۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔