| عنوان: | فلسطین۔۔۔ لہو کی پکار ! |
|---|---|
| تحریر: | آفرین لاکھانی |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
او بھائی! ذرا میری بات سنو! اگر کوئی ہمیں آواز دے، تو ہم فوراً اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ راستے میں کہیں لوگوں کا ہجوم دیکھ لیں، تو فوراً متوجہ ہوتے ہیں کہ آخر کیا ماجرا ہے؟ کیا حادثہ پیش آ گیا ہے؟ حتی کہ ایک چھوٹی سی آواز یا چیخ بھی ہمیں پکارنے والے کی طرف متوجہ کر دیتی ہے۔
لیکن حیرت ہے انسان پر! ساٹھ ہزار شہداء کا لہو پکار رہا ہے، فلسطین کے معصوم بچوں کی چیخیں، ماؤں کی سسکیاں، سرزمینِ اقصیٰ کا لرزنا، آسمان کا بمباری کی گرج سے دہلنا، مسجدِ اقصیٰ کی دیواروں کا کرب، خاکِ غزہ کی فریاد۔۔ یہ سب کچھ ہمیں سنائی کیوں نہیں دے رہا؟ ہمارا ضمیر کیوں نہیں جاگتا؟ کیوں آخر ہم اس قدر بے حس و بے غیرت ہو گئے؟
کیا غزہ اور فلسطین پر ہونے والا ظلم فقط ایک ٹرینڈ ہے؟ جس پر ہم چند دن اسٹیٹس لگاتے ہیں، ترانے اور نظمیں پوسٹ کرتے ہیں، ایک آدھ جلوس یا ریلی نکال کر خاموش ہو جاتے ہیں؟ کیا کبھی ہم نے ان اشعار پر غور کیا ہے جو ہم بڑے جوش سے سنتے، سناتے، سٹیٹس لگاتے ہیں! ہونٹوں پر قرآن سجا کر، سینوں میں طوفان بسا کر، جس دن ہم میدان میں آئیں گے۔۔۔ تو مسلمانوں! کس دن آؤ گے تم میدان میں؟ کب ظلم کے خلاف آواز بلند کرو گے؟ یہ خاموشی کب ٹوٹے گی؟ پچاس نہیں، ستر فیصد سے زائد فلسطین ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ عمارتیں گر گئیں، گھر جلا دیے گئے، بچے مار دیے گئے، پورے کے پورے خاندان مٹ گئے، جہاں کبھی بچوں کی کلکاریاں ہوا کرتی تھیں، آج بچوں کی سسکیاں ہیں؛ کبھی پر بہار رونق افروز ماحول تھا، آج اجڑے چمن اور ویران دیواریں۔۔ ہم کس دن کا انتظار کر رہے ہیں؟
ہم لبیک یا اقصیٰ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ لبیک کا مطلب کیا ہے؟ لبیک صرف زبان کا اعلان نہیں، بلکہ یہ دل کا عزم اور عمل کی تیاری کا اظہار ہے۔ لبیک کا مطلب ہے: ہم حاضر ہیں! اور یہ حاضری الفاظ سے نہیں بلکہ کردار سے ثابت ہوتی ہے۔ آج کے حالات میں، اہلِ علم کے مطابق، فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد اور ظلم کے خلاف جہاد ہم پر فرضِ عین کے درجہ تک پہنچ چکا ہے۔ جس طرح حج فرض ہے، کعبہ کا طواف فرض ہے، اسی طرح آج فلسطین پر ہونے والے ظلم پر خاموش نہ رہنا، آواز بلند کرنا، اور ظالموں کے خلاف کھڑے ہونا فرض ہو چکا ہے۔
اے خاموش مسلمانوں! غور کرو، تم حج کے لیے سفید لباس پہنتے ہو، ابلیس کو کنکریاں مارتے ہو۔ مگر فلسطین میں سفید کفن میں ہر گھنٹے نہ جانے کتنے معصوم دفن کیے جا رہے ہیں۔ وہ ننھے شہید، اپنے عزم و ہمت سے عالمی خاموشی پر کنکریاں مار رہے ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم خوابِ غفلت سے جاگیں؟ کیا اب بھی ہم صرف الفاظ کے مجاہد رہیں گے، یا واقعی میدانِ عمل میں اتریں گے؟
آخر اس خاموش ضمیر کے پیچھے کون سا خوف پوشیدہ ہے؟ اگر دلوں پر دشمنوں کی تعداد کا خوف غالب ہے، تو جنگِ کربلا یاد کرو! حسنی حسینی رنگ میں ڈھل کر تلوار اٹھاؤ اور باطل سے ٹکر جاؤ! اگر دنیا کے تمام مسلمان اپنی بے ضمیر حکومت کے خلاف جا کر فلسطین کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائیں، تو کیا یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں؟ اور فلسطین اس ظلم سے آزاد۔۔!
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں «وہن» ڈال دے گا“ تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! «وہن» کیا چیز ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب الملاحم/حدیث: 4297]
ہمارے آقاﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ: میری امت ایک جسم کہ مانند ہے، کہ اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو تمام بدن میں درد ہوتا ہے، تو کیوں یہ درد ہمیں محسوس نہیں ہو رہا؟ اہلِ فلسطین کے لہو کی پکار کیوں ہمارے خاموش ضمیروں کو نہیں جھنجھوڑ رہی؟ فلسطین کے لہو کی پکار، امتِ مسلمہ سے وفا اور غیرت کا تقاضا کر رہی ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے، جو آج خاموش رہا، کل اس کا نام بھی مردہ قوموں میں لکھا جائے گا۔
