| عنوان: | سرمایہ یقین |
|---|---|
| تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
| پیش کش: | ادارہ لباب |
زخم معمولی ہوں یا گہرے، بہر صورت اندمال کے لیے مرہمِ وقت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ زخموں کو بھرنے کے لیے وقت دیے بغیر فوری شفایابی کی تمنا فطرت کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بیج بو کر اگلے ہی پل پھل کی توقع کی جائے۔ ہر چیز کا وقت پر پروان چڑھنا فطری اور اٹل امر ہے۔ زخم کا فوری طور پر مندمل ہو جانا یقیناً ایک معجزہ ہے، اور معجزات آج بھی ہوتے ہیں، مگر... معجزے اتنے عام نہیں ہوتے، نایاب ہوتے ہیں، کم یاب ہوتے ہیں۔ معجزوں کے لیے یقین کی دولت درکار ہے، اور سرمایۂ یقین آج شامتِ اعمال کی بنا پر قلبِ انسانی سے چھین لیا گیا ہے۔ انسان کا دل شکوک و شبہات کی آماجگاہ بن چکا ہے، اور جہاں شک اپنا ڈیرا جمائے ہو، وہاں یقین کے پرندے پر نہیں مارتے۔
یقین زندگی ہے اور شک موت۔ یقین نور ہے اور شک تاریکی۔ یقین دریا ہے اور شک صحرا۔ یقین ایک لافانی قوت ہے جو روح کو پرواز بخشتی ہے اور ناممکن کو ممکن میں بدل دیتی ہے۔ یقین کی طاقت پتھروں سے نہر نکالتی ہے، موت کو زندگی میں بدلتی ہے۔ یقین ایک ٹھوس حقیقت ہے، جبکہ شک وہ سراب ہے جو پیاس بجھانے کے بجائے مزید پیاس کو بڑھا دیتا ہے۔
زندگی کے باطن کی جلوہ گری سے لطف اندوز اور بہرہ ور وہی ہوتے ہیں جنہیں سرمایۂ یقین سے سرفراز کر دیا جاتا ہے۔ صاحبِ یقین سمندر کی تہوں کو بے نقاب کرتا ہے، پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرتا ہے اور اس کے غیر متزلزل اور فولادی عزائم چٹانوں کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ صاحبِ یقین آگ میں چھلانگ لگا دیتا ہے اور شکوک و شبہات کی آماجگاہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ صاحبِ یقین سمندر میں راستے بناتا ہے، مچھلی کے پیٹ میں بھی باحیات رہتا ہے۔ پانی دستیاب نہ ہونے کے باوجود کشتی بناتا ہے اور وہی کشتی بعد میں سمندری طوفان سے اس کی حفاظت کا سامان کرتی ہے۔ صاحبِ یقین بنا جرم کے سالہا سال زنداں میں قید رہتا ہے اور مقررہ میعاد کے بعد زمین کی بادشاہت کا تاج اس کے سر ہوتا ہے۔
صاحبِ یقین نہ صرف خرد کی گتھیاں سمجھاتا ہے بلکہ حیات کی زلفِ برہم کی مشاطگی بھی کرتا ہے۔ یہ سب یقین کے کرشمے ہیں، یقین کے جلوے ہیں۔ یقین تو یقین ہے جو کبھی متزلزل نہیں ہوتا۔ اس کے پاؤں ڈگمگاتے نہیں، اس کے اعتقاد میں لغزش نہیں آتی۔ اسے کوئی دبدبہ ڈرا نہیں سکتا، اسے کوئی پیشکش لبھا نہیں سکتی۔ یقین گمانوں کی تاریک راتوں میں صبح کی نوید ہے۔
یقین ایمان ہے اور شک نفیِ ایمان۔ جس کو اپنے عقائد پر یقین نہ ہو، وہ حقیقت تسلیم نہیں کر سکتا۔ شک عقیدے کو زنگ آلود کرتا ہے، ذہن کو منتشر کرتا ہے اور خیالات کو فاسد کرتا ہے۔ صاحبِ گمان ہمیشہ پس و پیش میں ہی رہتا ہے۔ اس کی مثال شکستہ کشتی جیسی ہے جسے کوئی بھی ہوا راس نہیں آتی۔
حالیہ کا واقعہ کسی پر مخفی نہیں ہوگا۔ عامر، جو حجِ کعبۃ اللہ کے لیے گھر سے رختِ سفر باندھ کر نکلا، ہوائی اڈے پر پہنچنے کے بعد اس پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ پاسپورٹ میں معمولی خرابی کے باعث اس کی امیدوں کا شیرازہ بکھرنے والا ہے۔ اس کے قدموں تلے زمین نکل گئی اور شک کے بادل اسے گھیرنے لگے۔ اس لمحے وہ ایمان کی کسوٹی پر تھا: آیا وہ اس معمولی سی رکاوٹ کو اپنی منزل کے سامنے ایک پہاڑ سمجھتا ہے یا یقین کی طاقت سے اسے ایک چھوٹی سی چٹان میں بدل دیتا ہے جسے عبور کیا جا سکے؟ کیا وہ اپنے دل میں یقین کا دیا جلا پائے گا یا شک کی تاریکی اسے نگل لے گی؟
یہ وہ موڑ تھا جہاں عامر کو فیصلہ کرنا تھا کہ کیا وہ اس رکاوٹ کو تقدیر کی ناراضگی سمجھے گا یا اسے اپنے یقین کو مزید مستحکم کرنے کا ایک موقع جانے گا؟ اور اس کرامت کا تماشا بھی چشمِ انسانی نے دیکھ لیا، جب جہاز اسے چھوڑ کر روانہ ہوا تو جہاز کو اس کے یقین کی طاقت واپس کھینچ لائی! دوبارہ اس نے پوری آب و تاب کے ساتھ پرواز بھری، اس بار بھی وہی کرشمہ سامنے آیا۔ گویا آسمان کی رفعتیں بھی یقین کے آگے سر جھکا دیتی ہیں اور پرواز بھرتا جہاز بھی اس کی طاقت کے آگے بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔
یقین ہی انسانی ارتقا اور بقا کا لازمی جز ہے، نیز یقین ہی قوموں کی بنیاد اور عروج کا راز ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں سرمایۂ یقین سے سرفراز فرمائے، ہمارے قلوب کو نورِ یقین سے سرشار و تابدار فرمائے اور ہمارے خرد کی کم مائیگی کو سرمایۂ جنون عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین، یا رب العالمین، بجاہ النبی الامین۔
