دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

کیا ہے باغ فدک؟ (مختصر)

کیا ہے باغ فدک؟
عنوان: کیا ہے باغ فدک؟
تحریر: ولی محمد عطاری، درجہ سادسہ
پیش کش: جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاھوری، موڈاسا، گجرات

باغِ فدک مدینہ طیبہ سے دو یا تین منزل کے فاصلے پر خیبر کے قریب ایک باغ کا نام ہے۔ غزوہ خیبر کے بعد وہاں کے باشندوں نے اس شرط پر صلح کی تھی کہ ہم اپنی زمین کی پیداوار کا نصف حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتے رہیں گے۔ [نزہۃ القاری، ج: ۴، ص: ۱۴۶، ثانی، مغازی غزوہ خیبر، باب الجہاد، فرض الخمس، باب مناقب، قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم]

اس کے بعد باغِ فدک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آگیا تھا۔ اس کی آمدنی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال، ازواجِ مطہرات وغیرہ پر صرف فرماتے اور تمام بنی ہاشم کو بھی اس کی آمدنی سے کچھ مرحمت فرماتے تھے۔ مہمانوں اور بادشاہوں کے سفروں کی مہمان نوازی بھی اس آمدنی سے ہوتی تھی۔ اس سے غریبوں اور یتیموں کی امداد بھی فرماتے، جہاد کے سامان، تلوار، اونٹ اور گھوڑے وغیرہ اس سے خریدے جاتے، اور اصحابِ صفہ کی حاجتیں بھی اس سے پوری ہوتی تھیں۔

جب سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے، انہوں نے فدک کی آمدنی کو انہی تمام مدوں میں خرچ کیا، جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرمایا کرتے تھے۔ فدک کی آمدنی خلفائے اربعہ کے زمانے تک اسی طرح صرف ہوتی رہی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد باغِ فدک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے قبضے میں رہا، پھر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اختیار میں رہا۔ ان کے بعد علی بن حسین اور حسن بن حسن رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں میں آیا، ان کے بعد زید بن حسن بن علی، برادر حسن بن حسن کے تصرف میں آیا، پھر مروان اور مروانیوں کے اختیار میں رہا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا، انہوں نے باغِ فدک حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی اولاد کے تصرف میں دے دیا۔

باغِ فدک کا معاملہ اس تاریخ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ معاملہ کچھ بھی نہ تھا، مگر لوگوں نے بلاوجہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو الزام لگا کر انہیں مطعون کیا۔

یہ کہنا کیسا کہ باغِ فدک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیا تھا؟

یہ رافضیوں کا افتراء ہے، جس کا جواب دینا ہم اہلِ سنت پر لازم ہی نہیں، بلکہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ باغِ فدک نہیں دیا گیا تھا۔ جب حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے فدک طلب کیا، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ میرے نزدیک صادقہ امینہ ہیں۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے وصیت کی ہو یا وعدہ کیا ہو، تو میں اسے تسلیم کرتا ہوں اور فدک آپ کے حوالے کر دیتا ہوں۔ تو حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فدک کے معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے کوئی وصیت نہیں فرمائی۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کو باغِ فدک دینے کا جو افسانہ بنایا گیا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا خود بھی فرما رہی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک کے لیے میرے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی اور نہ ہی وعدہ فرمایا۔ لہٰذا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باغِ فدک حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کو نہیں دیا، دینے کا وعدہ بھی نہیں کیا، اور نہ ہی وصیت فرمائی، تو پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غصب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کے ناراض نہ ہونے کی ایک واضح دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے اخراجات حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہ میں پیش کرتے اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کی تیمارداری کرتی تھیں۔ اگر واقعی حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوتیں، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کی خدمت کو وہ ہرگز قبول نہ فرماتیں۔ [الاستیعاب، ج: ۴، ص: ۳۸۷، برہامش اصابہ]

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم: لا نورث ما تركناه صدقة [بخاری شریف، کتاب الفرائض، باب قول النبی لا نورث الخ، ج: ۴، ص: ۳۱۳]

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرما جانے کے بعد، ازواجِ مطہرات نے چاہا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مال سے اپنا حصہ تقسیم کروائیں۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

أليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا نورث ما تركناه صدقة [صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب حکم الفيء، ج: ۳، ص: ۱۳۷۷، دار إحياء التراث العربي، بیروت]

بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

ان رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قال: لا يقتسم ورثتي دينارا، ما تركت بعد نفقة نسائي ومؤنة عاملي فهو صدقة [صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب قول النبی لا يقتسم الخ، ج: ۳، ص: ۱۳۸۲، دار إحياء التراث العربي، بیروت]

ان تمام دلائل کی روشنی میں اظہر من الشمس واضح ہو چکا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باغِ فدک نہیں دیا تھا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو صحابہ و اہلِ بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کی سچی محبت عطا فرمائے، اور بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عشق سے مالامال فرمائے۔ آمین [ماخوذ: محرم الحرام و عقائد نظریات، مفتی ہاشم عطاری، مطبوعہ صراط پبلیکشنز]
نظر ثانی: استاذ محترم مفتی سرفراز صاحب مصباحی دامت برکاتہم العالیہ

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔