| عنوان: | عشق بلا کا صبر مانگتا ہے |
|---|---|
| تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
| پیش کش: | ادارہ لباب |
فطرت انسانی میں عشق کی ایک بے تاب لہر موجود ہے۔ ایک ایسی تشنگی جو سکون نہیں پاتی، ایک ایسا خلا جو پُر ہونے کے لیے بے قرار رہتا ہے، ایک ایسا تشنہ سفر جو شدت سے منزل کا متلاشی ہوتا ہے۔ عشق روح کی جستجو کا دوسرا نام ہے اور یہی وہ گم گشتہ نصب العین ہے جس کی جستجو قلب انسانی کو ہمیشہ رہی ہے۔ عشق ہی آسماں زاد بناتا ہے اور یہی کہکشاں صفت بھی۔
مگر عشق ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں۔عشق صبر مانگتا ہے، ضبط مانگتا ہے، حوصلے مانگتا ہے، نہ ٹوٹنے والا عزم مانگتا ہے، عشق کے منازل طے کرنے کے لیے پر خار راہوں سے گزرنا ہوتا ہے۔جہاں ہر گام پر انسان لہولہان اور اس کی روح زخمی ہوتی ہے۔سفر کا پر ہول سناٹا دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے، ایک عاشق کے لیے قدم قدم پر موت ہے۔ یوں کہہ لیں کہ
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
روایت میں آتا ہے:
عن عبد الله بن مغفل، قال: قال رجل للنبي ﷺ: يا رسول الله والله إني لأحبك. فقال له: «انظر ماذا تقول»، قال: والله إني لأحبك، ثلاث مرات، فقال: «إن كنت تحبني فأعد للفقر تجفافا، فإن الفقر أسرع إلى من يحبني من السيل إلى منتهاه» (سنن الترمذی: ۲۳۵۰)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم، میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: "دیکھو، تم کیا کہہ رہے ہو (یعنی غور کر لو)۔ اس شخص نے تین بار کہا: اللہ کی قسم، میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو فقر کے لیے زرہ (ڈھال) تیار کر لو، کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے، اس کی طرف فقر اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جتنی تیزی سے سیلاب اپنی انتہا (بہاؤ کی جگہ) تک پہنچتا ہے۔
عشقِ صادق میں اتنی آزمائشیں اور ابتلائیں اسی لیے ہیں کہ ہر کوئی اٹھ کر یہ دعویٰ نہ کر دے کہ وہ بھی عاشق ہے۔ عاشق جب عشق کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کی راہ میں کانٹے بچھ جاتے ہیں۔ ہر قدم پر وہ لہو لہان ہوتا ہے، ہر نیا لمحہ اس کے زخموں کو مزید کریدتا ہے۔ ہمہ دم وہ محبوب کے فراق میں کئی بار مرتا ہے، لیکن محبتِ حقیقی میں مر جانا ایسی موت ہے جو عاشق کو حیاتِ جاوداں بخشتی ہے۔ محبوب کے لیے مر جانا ہی ہمیشہ کے لیے بقا ہے۔
مگر عشق میں ملنے والی یہ تمام تکالیف و آلام مادی اور ظاہری ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے، جس کی تصویر کشی کرتے ہوئے رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بِالعِشْقِ يَصِيرُ المُرُّ حُلْوًا، وَالنُّحَاسُ ذَهَبًا، وَالْكَدَرُ صَفَاءً، وَالأَلَمُ دَوَاءً۔
ترجمہ: عشق سے کڑوا میٹھا ہو جاتا ہے، تانبا سونا بن جاتا ہے، کدورت صفائی میں بدل جاتی ہے، اور درد دوا بن جاتا ہے۔
عاشق کے لیے ہر زخم محبوب ہوتا ہے، ہر درد اسے خوشی بخشتا ہے، ہر کرب کو وہ اپنے دل پر تمغے کی طرح سجاتا ہے۔ ہر ضرب اسے اپنے محبوب سے قریب کرتی ہے، ہر آہ کو وہ اپنے محبوب کی خوشنودی و رضا کا ذریعہ سمجھتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ عشق میں ملنے والا ضرب و کرب تکمیلِ عشق کا مؤثر ذریعہ ہے، اور ہر زخم مزید گہری روحانیت اور نور بخشنے والا ہے۔
عاشقِ صادق کے دل میں صرف "ھُو" کی صدائیں گونجتی ہیں۔ محبوب کے سوا ہر چیز سے، حتی کہ اپنی ذات سے بھی، وہ بے خبر ہوتا ہے۔ اس کا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے: «اَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلاَ اللهَ بَاطِلٌ» خبردار! اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔
اس کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ اس کی نظروں میں محبوب کے جلوؤں کے سوا کچھ نہیں بستا۔ اس کا دل اس قول کا مصداق ہوتا ہے: «القَلْبُ الْعَاشِقُ لَا يَعْرِفُ غَيْرَ مَحْبُوبِهِ» عاشق دل اپنے محبوب کے سوا کسی کو نہیں جانتا۔ اللہ رب العزت ہمارے قلوب میں اپنے عشق کا نور داخل فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
