دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام

محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام
عنوان: محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام
تحریر: محمد کامران رضا
پیش کش: جامعۃ المدینہ فیضان اولیاء احمدآباد، گجرات

محبتِ رسول ﷺ ہی اصل ایمان ہے اور جانِ ایمان ہے۔ اس کے بغیر ایمان، ایسا بے جان جسم ہے جس میں زندگی کی رمق باقی نہیں رہتی۔ سرکارِ دو عالم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے والہانہ عشق و محبت کے جذبات میں ڈوب کر، جس شان و شوق سے اپنے محبوب آقا ﷺ سے عقیدت و وفا کا اظہار کیا، اس کی نظیر تاریخِ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے۔

مومن ہونے کے لیے حضور ﷺ پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح کامل مومن بننے کے لیے آقا کریم ﷺ سے سچی محبت رکھنا بھی ضروری ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ [صحیح بخاری، ج: ۱، ص: ۱۷، حدیث: ۱۵، کتاب الایمان]

تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

سرکار ﷺ کے اس فرمانِ مبارک کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مکمل طور پر اپنے اوپر نافذ کر لیا تھا۔ جیسا کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ، شیرِ خدا، کرم اللہ وجہہ الکریم سے کسی نے سوال کیا کہ آپ لوگ رسول اللہ ﷺ سے کیسی محبت کرتے ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

كَانَ وَاللّٰهِ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَمْوَالِنَا وَأَوْلَادِنَا وَآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ عَلَى الظَّمَاءِ [الشفاء، ج: ۲، ص: ۱۵، دار الکتب العلمیہ، بیروت]

خدا کی قسم! حضور ﷺ ہمیں اپنے مال، اولاد، والدین، ماؤں، اور سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے تین چیزیں پسند ہیں:

  • حضور ﷺ کے چہرہ پُر انوار کا دیدار کرتے رہنا،
  • آپ ﷺ پر اپنا مال خرچ کرنا،
  • آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر رہنا۔

[تفسیر روح البیان، ج: ۲، ص: ۲۶۴]

حقیقت یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کے بغیر ایمان کامل نہیں۔ اور اگر یہ محبت ہر دوسری محبت پر غالب نہ ہو، تو ایمان میں کمال آنا ممکن نہیں۔ ایمان نام ہی محبتِ رسول ﷺ کا ہے۔ اسی لیے امام اہلِ سنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان، وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے، میری جان ہیں یہ

مومنِ کامل کی پہچان یہی ہے کہ اس کے دل میں رسولِ خدا ﷺ کی محبت ہر رشتہ، ہر تعلق، اور ہر شے سے بڑھ کر ہو، چاہے وہ باپ ہو، بیٹا ہو، یا کوئی اور۔ یہی وہ پیمانہ ہے جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کامل اترے۔

بیشک حضور ﷺ کے تمام صحابہ عشق و محبت کے پیکر تھے۔ ان کی رگ رگ میں محبتِ مصطفیٰ ﷺ سمائی ہوئی تھی۔ ان کی زندگیوں کا ماحاصل عشقِ رسول ﷺ تھا۔ اسی لیے ان کا اندازِ محبت نرالا تھا۔ وہ حضور ﷺ کے وضو کے پانی کو بھی زمین پر گرنے نہ دیتے، تیروں کی بارش میں ڈھال بن کر آقا ﷺ کے آگے کھڑے ہو جاتے، اپنی جان و مال لٹانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے، اور ان کی زندگیوں کا واحد مقصد محبوبِ خدا ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا تھا۔ قبولِ اسلام سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک، صحابہ کرام نے حیاتِ نبوی ﷺ کی ہر ادا، ہر عادت، اور طرزِ زندگی کے ہر گوشے کو اپنے دل و دماغ پر ایسا نقش کر لیا تھا کہ وہ سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کے زندہ ترجمان بن گئے۔

تمام صحابہ آسمانِ عشق و محبت کے درخشاں ستارے ہیں۔ جو سوزِ محبت اور والہانہ انداز صحابہ کرام کے ہاں نظر آتا ہے، وہ تاریخِ محبت کے کسی اور صفحے پر نہیں ملتا۔ اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سرکارِ دو عالم، نورِ مجسم ﷺ سے حد درجہ محبت رکھتے تھے۔ آئیے اب، شمعِ رسالت کے ان پروانوں کے عشق و تعظیمِ مصطفیٰ ﷺ کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔

عشق اور محبت کسے کہتے ہیں:

حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی رحمہ اللہ محبت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: طبیعت کا کسی لذیذ شے کی طرف مائل ہو جانا "محبت" کہلاتا ہے۔ اور جب یہ میلان قوی اور پختہ، یعنی بہت شدید ہو جائے، تو اسے "عشق" کہتے ہیں۔ [احیاء العلوم، ج: ۵، ص: ۱۶]

صلحِ حدیبیہ کے سال قریش نے حضرت سیدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو (جو ابھی ایمان نہ لائے تھے) شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے پاس بھیجا۔ انہوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ جب وضو فرماتے، تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے اس قدر تیزی سے بڑھتے کہ یوں معلوم ہوتا جیسے ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔ جب لعابِ مبارک ڈالتے یا ناک صاف کرتے، تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسے ہاتھوں میں لے کر (بطورِ تبرک) اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتے۔ آپ ﷺ انہیں کوئی حکم دیتے، تو فوراً تعمیل کرتے، اور جب گفتگو فرماتے، تو آپ ﷺ کے سامنے خاموش رہتے اور از راہِ تعظیم آپ ﷺ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے۔ جب حضرت سیدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اہلِ مکہ کے پاس واپس گئے، تو ان سے کہا:

اے گروہِ قریش! میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں، لیکن خدا کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کی اس کی قوم میں ایسی شان و شوکت اور قدر و منزلت نہیں دیکھی، جیسی شان محمد مصطفیٰ ﷺ کی ان کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں دیکھی ہے۔ [الشفاء، ج: ۲، ص: ۲۴، دار الکتب العلمیہ، بیروت]

پیارے بھائیو! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سرکارِ دو عالم ﷺ سے بے پناہ محبت تھی، اور بھلا کیوں نہ ہو؟ جب کہ خود ربِ کریم عزوجل نے اپنے محبوب ﷺ سے محبت کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ چنانچہ پارہ ۱۰، سورۃ التوبہ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللّٰهُ بِأَمْرِهِ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ [سورۃ التوبہ، آیت: ۲۴]

ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ، اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان، یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں، تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے، اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہ آیتِ کریمہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کے لازم ہونے، فرض اور اہم چیز ہونے، اور آپ ﷺ کے اس محبت کے اصل مستحق ہونے کے بارے میں ترغیب، تنبیہ، اور دلیل و حجت ہونے کے لیے کافی ہے، کیونکہ جس نے اپنی آل و اولاد اور مال کی محبت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کی محبت سے زیادہ سمجھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسے سخت تنبیہ کی ہے اور ایسوں کو ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا: فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللّٰهُ بِأَمْرِهِ، تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے۔ نیز آیت کے آخر میں ایسوں کو فاسق فرمایا اور بتایا کہ یہ لوگ ان گمراہوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق نہ دی۔ [الشفاء، ج: ۲، باب الثانی فی لزوم محبتہ، ص: ۱۳، دار الکتب العلمیہ، بیروت]

اسی طرح صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:

دین کے محفوظ رکھنے کے لیے دنیا کی مشقت برداشت کرنا مسلمان پر لازم ہے، اور اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے مقابل دنیوی تعلقات کچھ قابل التفات نہیں، اور خدا اور رسول کی محبت ایمان کی دلیل ہے۔ [خزائن العرفان، سورۃ التوبہ، آیت: ۲۴]

آغازِ اسلام میں جب صحابہ کرام کی تعداد اڑتیس ہوگئی، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سرکارِ دو عالم ﷺ سے اعلان و اظہارِ اسلام کے لیے اجازت طلب کی اور اصرار فرماتے رہے، یہاں تک کہ حضور ﷺ نے اظہارِ اسلام کی اجازت مرحمت فرمائی۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ لوگوں کو خطبۂ اسلام دینے کے لیے کھڑے ہوئے، آقا ﷺ بھی وہاں تشریف فرما تھے۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کو اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بلانے والے پہلے خطیب کا شرف حاصل ہوا۔ مشرکینِ مکہ نے جب مسلمانوں کو کھلم کھلا دعوتِ اسلام دیتے دیکھا، تو ان کا خون کھول اٹھا اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و دیگر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھی نہایت بری طرح مارا، حتیٰ کہ عتبہ بن ربیعہ نامی خبیث آپ رضی اللہ عنہ کے قریب آیا اور اپنے ناپاک جوتے آپ رضی اللہ عنہ کے مبارک چہرے پر مارنے لگا اور آپ کے پیٹ پر چڑھ کر اچھل کود کرنے لگا، یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہوگئے۔ زخموں کی وجہ سے آپ کا چہرہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔ جب آپ کے قبیلہ بنو تیم کے لوگوں کو پتا چلا، تو وہ دوڑتے ہوئے آئے اور آپ کو مشرکین سے چھڑا کر گھر لے گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی تشویشناک حالت دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ زندہ نہ رہ پائیں گے۔ آپ کے والد ابوقحافہ اور بنو تیم کے لوگ بہت پریشان تھے اور مسلسل آپ رضی اللہ عنہ سے گفتگو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بالآخر دن کے آخری حصے میں آپ رضی اللہ عنہ کو ہوش آیا۔ لیکن ہوش میں آتے ہی زبان سے پہلا جملہ یہ نکلا کہ رسول اللہ ﷺ کس حال میں ہیں؟ آپ کی یہ بات سن کر قبیلے کے کئی لوگ ناراض ہو کر چلے گئے۔ آپ کی والدہ جب کچھ کھانے پینے کے لیے کہتیں، تو آپ صرف ایک ہی جملہ کہتے: رسول اللہ ﷺ کس حال میں ہیں؟ مجھے صرف ان کی خبر دو۔ جب آپ کو یہ خبر ملی کہ حضور ﷺ خیریت سے ہیں اور دارِ ارقم میں تشریف فرما ہیں، تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ پیوں گا جب تک اپنے محبوب آقا ﷺ کو بذاتِ خود دیکھ نہ لوں۔ جب سب لوگ چلے گئے، تو آپ کی والدہ اور ام جمیل بنت خطاب آپ کو سہارا دے کر شہنشاہِ مدینہ ﷺ کی بارگاہ میں لے گئیں۔ جب آپ ﷺ نے اپنے عاشقِ زار کو دیکھا، تو آبدیدہ ہوگئے اور آگے بڑھ کر انہیں تھام لیا اور ان کے بوسے لینے لگے۔ یہ منظر دیکھ کر تمام مسلمان بھی فرطِ جذبات میں آپ کی طرف لپکے۔ زخموں سے چور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر حضور ﷺ پر بڑی رقت طاری ہوئی۔ اس پر آپ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں ٹھیک ہوں، بس چہرہ تھوڑا زخمی ہو گیا ہے۔ [تاریخ مدینة دمشق، ج: ۳۰، ص: ۴۹]

ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپ میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: خدا کی قسم! آپ میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: اے عمر! اب تمہارا ایمان کامل ہوا۔ [صحیح بخاری، حدیث: ۶۶۳۲]

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

نبی کریم ﷺ کے بغیر طوافِ کعبہ نہیں کیا۔ طوافِ خانۂ کعبہ کس کو عزیز نہیں؟ شاید ہی کوئی مسلمان ہو جس کے دل میں طوافِ کعبہ نہ کرنے کی خواہش ہو، اور شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے اس شرف سے مشرف ہونے کا موقع ملے اور وہ اس موقع کو غنیمت نہ جانے۔ لیکن قربان جائیے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی محبتِ رسول پر کہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مقامِ حدیبیہ میں پہنچ کر حضور اکرم ﷺ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ میں کفار کے پاس صلح کا پیغام دے کر بھیجا، تو کفارِ مکہ نے آپ سے جو کہا اور آپ نے جو جواب دیا، اس پر رشک کو بھی رشک آتا ہے۔ علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی مالداری اور اپنے قبیلہ والوں کی حمایت و پاسداری کی وجہ سے کفارِ قریش کی نگاہوں میں بہت زیادہ معزز تھے۔ اس لیے کفارِ قریش ان پر کوئی دراز دستی (یعنی زیادتی) نہیں کر سکے، بلکہ ان سے یہ کہا کہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ آپ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر کے اپنا عمرہ ادا کر لیں، مگر ہم محمد ﷺ کو کبھی ہرگز ہرگز کعبہ کے قریب نہ آنے دیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اور کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے بغیر کبھی ہرگز ہرگز عمرہ نہیں ادا کر سکتا۔ [سیرتِ مصطفیٰ، ص: ۳۴۸]

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی۔ آپ ﷺ نے اسے نکال کر پھینک دیا اور فرمایا: کیا تم میں کوئی چاہتا ہے کہ آگ کا انگارا اپنے ہاتھ میں ڈالے؟ رسول ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد کسی نے اس شخص سے کہا: تو اپنی انگوٹھی اٹھا اور بیچ کر اس سے فائدہ اٹھا۔ اس نے جواب دیا: نہیں، اللہ عزوجل کی قسم! میں اسے کبھی نہیں لوں گا جب رسول خدا ﷺ نے اسے پھینک دیا ہے، تو میں اسے کیسے لے سکتا ہوں؟ [مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۴۳۸۵]

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا عشقِ رسالت:

حضرت بلال رضی اللہ عنہ وہ صحابی رسول ﷺ ہیں جن کو بالکل آغازِ اسلام میں مشرف بہ اسلام ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ ایسے خوفناک ماحول میں جب اسلام لانے کی پاداش میں سخت ترین مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑتا تھا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کفارِ مکہ سخت سے سخت اذیتیں دیتے تھے۔ انہیں پکڑ کر لے جاتے، دھوپ میں لٹا دیتے، اور پتھر لا کر ان کے پیٹ پر رکھ دیتے، اور کہتے: تمہارا دین لات و عزیٰ کا دین ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہتے: میرا پروردگار اللہ عزوجل ہے۔ ایسے مصائب جھیلتے، مگر سینے میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ اس طرح پیوست تھا کہ سارے آلام و مصائب اس کے سامنے ہیچ تھے। [صحابہ کرام کا عشقِ رسول، ص: ۱۳۲]

حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی جلی ہوئی پیٹھ:

امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ صحابی رسول ﷺ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی پیٹھ نظر آگئی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ پوری پشتِ مبارک میں سفید سفید زخموں کے نشان ہیں۔ دریافت فرمایا: اے خباب رضی اللہ عنہ! یہ تمہاری پیٹھ میں زخموں کے نشان کیسے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: امیر المؤمنین! آپ رضی اللہ عنہ کو ان زخموں کی کیا خبر؟ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ ننگی تلوار لے کر حضور رحمۃ للعالمین ﷺ کا سر کاٹنے کے لیے دوڑتے پھرتے تھے۔ اس وقت ہم نے محبتِ رسول ﷺ کا کیا چراغ اپنے دل میں جلایا اور مسلمان ہوئے۔ اس وقت کفارِ مکہ نے مجھے آگ کے جلتے ہوئے کوئلوں پر بیٹھ کر لٹا دیا، میری پیٹھ سے اتنی چربی پگھلی کہ کوئلے بجھ گئے، اور میں گھنٹوں بے ہوش رہا، مگر ربِ کعبہ کی قسم! جب مجھے ہوش آیا، تو سب سے پہلے زبان سے کلمہ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ نکلا۔ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی مصیبت سن کر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا: اے خباب رضی اللہ عنہ! کرتا اٹھاؤ! میں تمہاری اس پیٹھ کی زیارت کروں گا۔ اللہ اللہ! یہ پیٹھ کتنی مبارک و مقدس ہے جو محبتِ رسول ﷺ کی بدولت آگ میں جلائی گئی ہے۔ [صحابہ کرام کا عشقِ رسول، ص: ۱۱۹]

جنگِ احد میں ایک انصاری صحابیہ رضی اللہ عنہا کے باپ، بھائی، اور شوہر شہید ہوگئے۔ انہیں یہ خبر ملی، تو کچھ پروا نہ کی اور پوچھا: یہ بتاؤ کہ آقا ﷺ کیسے ہیں؟ جب بتایا گیا کہ حضور اکرم ﷺ خیریت سے ہیں، تو ان انصاری صحابیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کرواؤ۔ جب آپ ﷺ کی زیارت کی، تو عرض کرنے لگی:

كُلِّ مُصِيبَةٍ بَعْدَكَ جَلَل [صحابیات اور عشقِ رسول، ص: ۱۷]

یعنی آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ (معمولی) ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کا ہر ہر پہلو، خواہ وہ جینا ہو یا مرنا، کھانا ہو یا پینا، اٹھنا ہو یا بیٹھنا، چلنا ہو یا پھرنا، محبت ہو یا عداوت، الغرض ان کا ہر فعل، ہر جذبہ، اور ہر عمل سراپا عشقِ رسول ﷺ کا مظہر تھا۔ ان عظیم ہستیوں کی زندگیاں ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں، جنہیں پڑھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ ذیل میں چند واقعات پیشِ خدمت ہیں جن سے محبتِ رسول ﷺ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

حضرت عبداللہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے جنگِ بدر میں اپنے ہی والد کو قتل کر دیا، کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کا دشمن تھا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسی معرکہ میں اپنے سگے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا اور ذرہ برابر قرابت داری کا لحاظ نہ کیا۔

حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ایک جنگ میں اپنے بھائی سے ٹکرا کر حق کا پرچم بلند کیا اور بھائی کو قتل کر دیا۔

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے بدر کے میدان میں اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے عقبہ بن ربیع، شیبہ بن ربیع، اور ولید بن عقبہ کو قتل کر دیا اور محبتِ رسول ﷺ کی مثال قائم کر دی۔

پیارے بھائیو! اس طرح کے واقعات سے کتبِ حدیث و سیرت بھری ہوئی ہیں۔ ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ جب معاملہ دین و ایمان اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت کا آتا، تو وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی حق کے مقابلے میں ذرہ برابر اہمیت نہ دیتے۔

ایک مرتبہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ بارگاہِ حبیبِ خدا ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! مَتَى السَّاعَةُ؟ حضور، قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وہ عرض کرنے لگے: میرے پاس زیادہ نمازیں اور صدقات تو نہیں، إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، مگر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ جانِ رحمت، مالکِ جنت ﷺ نے ارشاد فرمایا: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ، تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تجھے محبت ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آج تک ہم اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے آپ ﷺ کا یہ فرمان سن کر خوش ہوئے کہ محب محبوب کے ساتھ ہو گا۔ [صحیح بخاری، ج: ۲، ص: ۵۲۷، حدیث: ۳۶۸۸]

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ تاجدارِ دو عالم ﷺ کے ساتھ کمال درجہ کی محبت رکھتے تھے اور انہیں جدائی کی تاب نہ تھی۔ ایک روز اس قدر غمگین اور رنجیدہ حاضر ہوئے کہ چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔ تو رسولِ کریم ﷺ نے دریافت فرمایا: آج رنگ کیوں بدلا ہوا ہے؟ عرض کیا: نہ مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ درد، سوائے اس کے کہ جب حضورِ اقدس ﷺ سامنے نہیں ہوتے، تو انتہا درجہ کی وحشت و پریشانی ہو جاتی ہے۔ جب آخرت کو یاد کرتا ہوں، تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں میں کس طرح دیدار پاسکوں گا؟ آپ اعلیٰ ترین مقام میں ہوں گے، اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جنت بھی دی، تو اس مقامِ عالی تک رسائی کہاں؟ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی:

وَمَنْ يُطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا [سورۃ النساء، آیت: ۶۹]

ترجمہ کنز العرفان: اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے، تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے فضل کیا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء، اور صالحین، اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ [تفسیر خازن، ج: ۱، ص: ۴۰۰]

حضور ﷺ کے بعد دنیا قابلِ دید نہ رہی:

جب حضور ﷺ کے وصالِ ظاہری کی خبر آپ کے مؤذن حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے سنی، تو وہ اس قدر غمزدہ ہوئے کہ نابینا ہونے کی دعا مانگنے لگے کہ میرے آقا ﷺ کے بغیر یہ دنیا میرے لیے قابلِ دید نہ رہی۔ آپ اسی وقت نابینا ہوگئے۔ لوگوں نے کہا: تم نے یہ دعا کیوں مانگی؟ فرمایا: لذتِ نگاہ تو دیکھنے میں ہے، مگر سرکار ﷺ کے بعد اب میری آنکھیں کسی کے دیدار کا ذوق ہی نہیں رکھتیں۔ [شواهد النبوة، رکن رابع، ص: ۱۳۹]

محترم قارئین! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبتِ رسول ﷺ کا حال ملاحظہ کیجیے، اور پھر اپنی زندگیوں کا جائزہ لیجیے، فرق واضح ہے! وہ صحابہ کرام، جو سچے معنوں میں عاشقِ رسول تھے، جنہوں نے سرکارِ دو عالم ﷺ کے ہر فرمان پر اپنی جانیں قربان کر دیں، اور نبی مکرم ﷺ کے دشمنوں کے مقابلے میں کبھی اپنی جانوں کی پروا نہ کی۔ چاہے وہ دشمن ان کے باپ، بھائی، ماموں، یا کوئی اور قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، صحابہ کرام نے حق کے مقابلے میں کبھی قرابت داری کا لحاظ نہ کیا۔ جبکہ افسوس! آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم صرف زبان سے عاشقِ رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر عمل میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ حضور ﷺ کے کسی ایک فرمان پر بھی مکمل عمل کرنے کو تیار نہیں، جان دینا اور قربانی دینا تو بہت دور کی بات ہے!

یاد رکھیے! عشقِ رسول ﷺ کا صرف دعویٰ کافی نہیں، بلکہ حقیقی عشق کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کے مطابق بسر ہو۔ سچا عشق یہی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے انداز کو اپنائیں، ان کے طریقوں پر چلیں، ان کے فرامین کو دل سے تسلیم کریں، اور ان پر عمل کریں۔ جیسے آپ ﷺ نے نماز کا حکم دیا، تو نماز پڑھیں، روزوں کا ارشاد فرمایا، تو روزے رکھیں، گناہوں سے بچنے کا فرمایا، تو گناہوں سے بچتے رہیں، اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار کے ساتھ زندگی گزاریں۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حضور سے محبت کی علامت یہ ہے کہ ان کے احکام، ان کے اعمال، ان کی سنتوں سے، ان کے قرآن، ان کے فرمان، ان کے مدینہ کی خاک سے محبت ہو۔ بےنماز، بےروزہ، بھنگی، چرسی دعویٰ عشقِ رسول کریں، جھوٹے ہیں، محبت کی علامت اطاعت ہے۔ [مرآۃ المناجیح، ج: ۶، ص: ۶۰۳]

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

سب سے بڑا خوش نصیب وہ ہے جسے کل (بروزِ قیامت جنت میں) حضور ﷺ کا قرب نصیب ہو جائے۔ اس قرب کا ذریعہ حضور ﷺ سے محبت ہے، اور حضور ﷺ کی محبت کا ذریعہ اتباعِ سنت، کثرت سے درود شریف کی تلاوت، حضور ﷺ کے حالاتِ طیبہ کا مطالعہ، اور محبت والوں کی صحبت ہے۔ یہ صحبت اکسیرِ اعظم ہے۔ ساری عبادات محبتِ رسول کی فروع (یعنی شاخیں) ہیں، مگر محبت کے ساتھ اطاعت بلکہ متابعت ضروری ہے۔ برات کا کھانا صرف عمدہ لباس سے نہیں ملتا، بلکہ دولہا کے تعلق سے ملتا ہے۔ اگر رب تعالیٰ سے کچھ لینا ہے، تو حضور ﷺ سے تعلق پیدا کرو۔ [مرآۃ المناجیح، ج: ۶، ص: ۵۸۹-۵۹۰]

اللہ رب العزت ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حقیقی معنوں میں محبتِ رسول ﷺ نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔