| عنوان: | فجر کی جماعت کب قائم کریں؟ |
|---|---|
| تحریر: | مولانا عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
جماعت کے معاملے میں تکثیر کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ جماعت اس وقت قائم کی جائے جب لوگوں کے لیے آسانی ہو اور زیادہ لوگ جمع ہو سکیں۔ فجر کے متعلق متعدد احادیث ہیں، جن میں حکم ہے کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب ہلکی پھلکی روشنی فضا میں پھیلنے لگے، چہرے کچھ پہچانے جانے لگیں، اور راستے واضح ہونا شروع ہو جائیں۔ اس وقت لوگوں کے لیے جمع ہونا اور جماعت میں شامل ہونا بھی قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ اسے عربی زبان میں "اسفار" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کثیر جماعت کا بڑا خیال رکھتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد جماعت کی برکات حاصل کر سکیں۔
فجر کے متعلق احادیث ملاحظہ کریں:
أسفروا بصلاة الفجر؛ فإنه أعظم للأجر [مسند البزار، ج: ۱۲، ص: ۲۳۵، حدیث: ۶۲۴۴]
نمازِ فجر روشنی کر کے پڑھو کہ اس میں زیادہ اجر یعنی ثواب ہے۔
يا بلال! نوّر بصلاة الصبح حتى يبصر القوم مواقع نبلهم من الإسفار [مسند أبي داود الطيالسي، ص: ۱۲۹، حدیث: ۹۶۱]
اے بلال! صبح کی نماز روشنی کر کے پڑھو، حتیٰ کہ لوگ روشنی کی وجہ سے تیر گرنے کی جگہ کو بھی دیکھ لیں۔
عن عبد الرحمن بن يزيد قال: كنا نصلي مع ابن مسعود رضي الله عنه فكان يسفر بصلاة الصبح [شرح معاني الآثار، ج: ۱، ص: ۲۳۵، حدیث: ۱۰۶۰، كتاب الصلاة، باب الوقت الذي يصلى فيه الفجر]
حضرت عبدالرحمن بن یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، آپ صبح کی نماز یعنی نمازِ فجر روشن کر کے پڑھتے۔
اس کے علاوہ متعدد احادیث ہیں، جن میں بار بار بیان کیا گیا کہ نمازِ فجر روشنی کر کے پڑھنا رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار بھی رہا اور آپ نے یہی حکم بھی ارشاد فرمایا۔ صحابہ و تابعین علیہم الرضوان بھی اسی پر عامل رہے۔
علامہ عثمان بن علی زیلعی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ونُدِبَ تأخيرُ الفجرِ أي يستحبُّ تأخيرُ الفجرِ ولا يؤخِّرُها بحيث يقعُ الشكُّ في طلوعِ الشمسِ بل يُسفرُ بها بحيث لو ظهرَ فسادُ صلاتِه يُمكنهُ أن يُعيدَها في الوقتِ بقراءةٍ مستحبةٍ.... ولأنَّ في الإسفارِ تكثيرَ الجماعةِ وتوسيعَ الحالِ على النائمِ والضعيفِ في إدراكِ فضلِ الجماعةِ [تبيين الحقائق، ج: ۱، ص: ۸۲، كتاب الصلاة، باب الأوقات التي مستحب فيها الصلاة، طبع: قاہرہ]
فجر میں تاخیر کرنا مندوب ہے، یعنی فجر کی نماز کچھ تاخیر کر کے پڑھنا مستحب ہے، ہاں اتنا تاخیر نہ کرے کہ سورج طلوع ہونے میں شک پڑ جائے، بلکہ روشنی میں اس طرح پڑھے کہ اگر نماز کا فاسد ہونا ظاہر ہو، تو ممکن ہو کہ قراءتِ مستحبہ کے ساتھ وقت کے اندر نماز کا اعادہ کیا جا سکے۔ اسفار یعنی روشنی میں نمازِ فجر ادا کرنے میں جماعت کی کثرت حاصل ہوتی ہے، اور اس میں سونے والوں اور کمزور لوگوں کی رعایت بھی ہے تاکہ وہ جماعت کی فضیلت پا سکیں۔
امام اہلِ سنت امام احمد رضا قادری برکاتی رحمہ اللہ فتاویٰ رضویہ میں فجر کے مستحب وقت کے متعلق لکھتے ہیں:
آج صبح کا جتنا وقت ہے، اس کا نصفِ اول چھوڑ کر نصفِ ثانی سے وقتِ مستحب شروع ہوتا ہے، کمافی البحر الرائق وغیرہ، اور اس میں بھی جس قدر تاخیر ہو، افضل ہے۔ أسفروا بالفجر فإنه أعظم للأجر (فجر کو خوب روشن کرو، کیونکہ اس میں زیادہ اجر ہے)۔ مگر نہ اس قدر کہ طلوع میں شبہ پڑ جائے، اتنا وقت رہنا اولیٰ کہ اگر نماز میں کوئی فساد ہو، تو وقت میں مسنون طور پر اعادہ ہو سکے۔ واللہ تعالیٰ اعلم [فتاویٰ رضویہ، ج: ۴، ص: ۲۴۸، طبع: امام احمد رضا اکیڈمی]
ایک دوسرے فتوے میں رقم طراز ہیں:
ہمارے علماء کے نزدیک مردوں کو دواماً ہر زمان و ہر مکان میں اسفارِ فجر، یعنی جب صبح خوب روشن ہو جائے، نماز پڑھنا سنت ہے، سوائے یوم النحر کے کہ حجاج کو اس روز مزدلفہ میں تغلیس چاہیے۔ پھر احادیثِ اسفار نقل کر کے کہتے ہیں: اور پر ظاہر کہ یہ بات اس وقت حاصل ہوگی جب صبح خوب روشن ہو جائے گی، اور جب اذان ایسے وقت ہوگی، تو نماز اس سے بھی زیادہ روشنی میں ہوگی۔ حکمتِ فقہی اس باب میں یہ ہے کہ اسفار میں تکثیرِ جماعت ہے، جو شارع کو مطلوب و محبوب، اور تغلیس میں تقلیل اور لوگوں کو مشقت میں ڈالنا، اور یہ دونوں ناپسند و مکروہ۔ اسی لیے امام کو تخفیفِ صلاة اور کبیر و ضعیف و مریض و حاجت مند کی مراعات کا حکم فرمایا۔ [فتاویٰ رضویہ، ج: ۴، ص: ۲۵۱-۲۵۳، طبع: امام احمد رضا اکیڈمی]
فی زمانہ بعض ائمہ کرام کو دیکھا ہے کہ جلد بازی میں نمازِ فجر بالکل تاریکی میں ادا کرتے اور اس کی جماعت کا اہتمام کرواتے ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ لوگ جماعت میں شریک نہیں ہو پاتے اور بڑی قلیل تعداد میں ہی جماعتِ فجر قائم ہوتی ہے۔ حالانکہ انہیں چاہیے کہ فجر تاخیر کر کے جب کچھ آسمان میں روشنی پھیل جائے، اس وقت پڑھیں۔ اس میں سنتِ رسول پر عمل بھی ہے اور لوگوں کے لیے آسانی بھی۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جہاں جماعتِ فجر کچھ روشنی کر کے قائم ہوتی ہے، وہاں زیادہ افراد شریک ہوتے ہیں، جبکہ جن مساجد میں فجر کا وقت ہونے کے چند منٹ بعد ہی جماعت قائم ہو جاتی ہے، وہاں زیادہ لوگ شریک نہیں ہو پاتے۔
میں خود ایک مسجد کو جانتا ہوں، جہاں ابتدائی وقت میں ہی جماعتِ فجر کا قیام ہو جاتا ہے، جس کی بنا پر مسجد میں بڑے قلیل افراد پہنچ پاتے ہیں، اور کئی افراد ایسے ہیں جو امام صاحب سے اس لیے نالاں رہتے ہیں کہ اتنا جلدی جماعت کیوں قائم کی جاتی ہے، حالانکہ جماعتِ فجر تو کچھ روشنی میں قائم ہونی چاہیے تاکہ زیادہ لوگ شریک ہو کر ثواب کے مستحق بن سکیں۔
جو شخص بالکل اندھیرے میں ہی نمازِ فجر پڑھ لیتا ہے، اس کے متعلق امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
اس شخص کا اول وقت اندھیرے میں نماز پڑھنا سنت کی مخالفت کرنا ہے، اور ان کو اس کی تاکید کرنا مخالفِ سنت کی طرف بلانا ہے، اور یہ کہنا کہ روشنی میں نماز مکروہ ہوتی ہے، سنت کو مکروہ کہنا اور شریعتِ مطہرہ پر بہتان اٹھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
[فتاویٰ رضویہ، ج: ۴، ص: ۲۵۴، طبع: امام احمد رضا اکیڈمی]
تاریخ: ۲ ربیع الثانی، ۱۴۴۷ھ / ۲۵ ستمبر ۲۰۲۵ء
