عنوان: | عاشقانِ مصطفیٰ ﷺ کی ثابت قدمی |
---|---|
تحریر: | خوشہانہ قادری احمدی |
مومن کی اصل شناخت اس کا ایمان، اس کا کردار اور اس کے دل میں موجزن عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ مومن کسی دنیاوی طاقت، کسی ظلم و جبر اور کسی ستمگر کے سامنے جھکنے والا نہیں ہوتا۔ اس کے نزدیک زندگی اور موت دونوں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتیں ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ یہ فانی دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور اصل زندگی وہ ہے جو آخرت میں ملے گی۔
مومن کے لیے موت کوئی خوف یا سزا نہیں بلکہ ایک انعام، ایک بشارت اور ایک مسرت ہے۔ کیونکہ جس دل میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چراغ روشن ہو جائے، اس کے لیے موت دراصل قید سے رہائی اور محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا وسیلہ ہے۔ مومن کی آنکھیں یہ یقین رکھتی ہیں کہ دنیا سے رخصت ہوتے ہی قبر کی تاریکیاں نور میں بدل جاتی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اس کی روح کو جلا بخشتی ہے۔
اللہ رب العزت قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ [آلِ عمران: 169]
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ شہید فنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی جان قربان کرکے دائمی عزت و کرامت حاصل کرتا ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ [صحیح مسلم]
ترجمہ: دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے۔
یعنی مومن کے لیے دنیا ایک امتحان گاہ ہے، اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو گویا قید سے رہائی پاکر دائمی راحت کی طرف چلا جاتا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں دنیاوی و اخروی دونوں امتحان میں کامیاب فرمائے۔
اور حدیث شریف میں ہے۔
الموتُ تحفۃُ المؤمن [مشکوٰۃ المصابیح 1609]
ترجمہ: موت مومن کے لیے تحفہ ہے۔
یہ حدیث مومن کے دل کو تسکین بخشتی ہے کہ موت اس کے لیے کسی سزا کا پیغام نہیں بلکہ ایک انعام ہے، کیونکہ اس کے ذریعے وہ اپنے رب کے قرب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سچے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظلم و ستم کے سامنے ڈگمگاتے نہیں، موت کے نام سے لرزتے نہیں، بلکہ اپنے ایمان اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت قدم رہتے ہیں۔ ان کی جانیں جا سکتی ہیں، ان کے جسم زخمی ہو سکتے ہیں، لیکن وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر ذرہ برابر بھی آنچ نہیں آنے دیتے۔
جسے کٹنا نہیں آتا ہے ناموسِ رسالت ﷺ پر
بدن پر بوجھ ہے وہ سر اُٹھا کر بوجھ کیا کرنا
الحمدللہ! ہم بھی انہی عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قافلے سے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ موت ہمارے لیے راحت ہے، سزا نہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ جس کے دل میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بس جائے، اسے نہ دنیا کی کوئی طاقت روک سکتی ہے اور نہ موت ہراساں کر سکتی ہے۔
یہ جو ظالم پولیس نے بریلی شریف کے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ڈر گئے ہیں؟ ہرگز نہیں! پولیس کی بربریت دیکھ کر میرا دل اور آنکھ دونوں اشکبار ہو گئے۔ یہ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ہمیں مار کر، ہمیں دھمکیاں دے کر، یا جان لینے کی کوشش کر کے ہمارا ایمان یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ختم کروا سکتے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہونے والا۔
جتنا ظلم و جبر وہ بڑھائیں گے، اتنی ہی شدت سے عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دلوں میں پروان چڑھے گا۔ مظلوم جب سچ پر قائم ہوتا ہے تو وہ نہ صرف خود ثابت قدم رہتا ہے بلکہ اس کی شرحِ وفا دوسروں کے دلوں کو بھی روشن کرتی ہے۔ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے مومن کبھی کنارہ کش نہیں ہوگا؛ وہ سر کٹا سکتا ہے مگر عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سودا نہیں کرے گا۔
مرد حق باطل کے آگے مات کھا سکتا نہیں
سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکتا نہیں
تم سمجھ لو ان شاء اللہ، تم سے جلد میرا رب حساب لے گا۔ یہ دعا اور یقین ہے کہ ہر ذی حق کے ساتھ انصاف ہوگا، اور جو لوگ ظلم کرتے ہیں ان کے اعمال کا بدلہ انہیں اپنی جگہ ضرور ملے گا۔
کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا
وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا
مومن وہ ہے جو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار ہو، جو دنیا کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہے، اور جو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کو اولیت دے۔ ظلم و ستم کے باوجود ہمارا عشق قائم رہے گا، اور ہم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کبھی کمزور نہیں ہوں گے۔
محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے