دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

عطا سرّ بقا

عنوان: عطا سرّ بقا
تحریر: مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا
پیش کش: ادارہ لباب

قَدْرُكَ لَيْسَ فِيمَا تَمْلِكُ، بَلْ فِيمَا تُقَدِّمُ۔

آپ کی حیثیت آپ کے پاس موجود شدہ اشیاء میں نہیں، بلکہ اس میں ہے جو آپ پیش کرتے ہیں۔

آپ کی حقیقی شناخت اور حقیقی جوہر "تقسیم" میں مضمر ہے۔ آپ کی اصل حقیقت اس میں نہیں کہ کتنی اشیاء آپ کی ملکیت میں قید ہیں، کتنے خزانے آپ کے تہہ خانوں میں دفن ہیں یا کتنے القابات آپ کے نام کے ساتھ جڑے ہیں، بلکہ اس میں ہے کہ آپ نے کتنے بیجوں سے گلشنِ انسانیت کو سیراب کر کے انہیں زندگی بخشی، اور اپنے وجود کی قندیل سے کتنوں کی تاریک راہوں کو منور کیا۔

حدیث شریف میں آتا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «يَقُولُ الْعَبْدُ: مَالِي مَالِي، إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ: مَا أَكَلَ فَأَفْنَى، أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى، أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ.» (صحيح مسلم، رقم الحدیث: ۲۳۶۹، دار الطباعة العامرة – ترکیا)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ کہتا ہے: میرا مال، میرا مال! حالانکہ اس کا مال صرف تین چیزیں ہیں: جو کھا لیا اور ختم کر دیا، یا پہن لیا اور بوسیدہ کر دیا، یا دے دیا اور باقی کر دیا۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ جانے والا ہے اور لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔

عطا میں ہی بقا کا راز مضمر ہے۔ جس نے عطا کیا، اس نے وقت کے بہاؤ میں اپنا نام نقش کر لیا، جب کہ محض اپنی خاطر جمع کرنے اور اپنی ملکیت میں اضافہ کرنے کا جنون فی الواقع روح پر ایک حجاب ہے، جو محض دیواریں چننے پر آمادہ کرتا ہے کہ انسان اپنے ہی گرد ایک قبرستان تعمیر کرتا ہے۔ ایسا شخص اپنی حیات کے حسن سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔

جیسا کہ صوفیا فرماتے ہیں:

من أعطى، وُجدَ، ومن استمسك، فُقِدَ۔

جس نے عطا کیا، اسے پایا گیا اور جس نے روک لیا، وہ گم ہو گیا۔

صوفیاء برحق فرماتے ہیں کہ اصل زندگی وہ نہیں جو سانسوں سے ناپی جائے، بلکہ وہ ہے جو بذریعۂ عطا دلوں میں زندہ رہے، کیونکہ ذات کا فنا ہونا حقیقت ہے، مگر اثر کا باقی رہنا معراج ہے۔

اس کائناتِ رنگ و بو میں موجود اشیاء کا بنظرِ غائر مشاہدہ کیا جائے تو آپ کو جگہ جگہ تقسیم کے جلوے ہی بکھرے ہوئے نظر آئیں گے۔ دریا اپنا پانی خود نہیں پیتا، درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتے، تارے اور سیارے اپنی روشنی سے خود مستفید نہیں ہوتے، شمس و قمر اپنے نور سے خود کو منور نہیں کرتے۔

بلکہ۔۔۔۔۔،،، قلزم کی وسعتیں اور گہرائیوں کا حقیقی جوہر زمین کو سیراب کرنے میں ہے۔ درختوں کا حقیقی جوہر اپنی ثمر آوری سے مخلوق کو مستفید کرنے میں ہے۔ تاروں اور سیاروں کا نور کائنات کو منور کرنے کے لیے ہے، اور شمس و قمر کی روشنی مخلوق کے استفادہ کی خاطر ہے۔

یونہی آپ کا حقیقی اثاثہ آپ کی ملکیت نہیں، آپ کی "تقسیم" ہے۔ یہ تقسیم خواہ۔۔۔۔۔، مال و منال کی ہو، ہنر و کمال کی ہو، جود و نوال کی ہو، فکر و خیال کی ہو، انداز و خصال کی ہو، یا۔۔۔۔، آپ کے حوصلہ بخشتے لہجوں کی صورت میں ہو، اعتماد بندھاتے حروف و الفاظ کی صورت میں ہو، لڑکھڑاتے قدم کو سہارا بخشنے کی صورت میں ہو، یا کسی کی ناکامیوں کے پیچھے چھپی کامیابی کا جوہر آشکار کرنے کی صورت میں ہو، یا پھر یہ یقین دلانے کی صورت میں ہو کہ ہر زوال اپنے اندر کمال کا ایک نیا باب لیے ہوئے ہے۔

عزیزوں! آپ کی روح کا ابدی سرمایہ آپ کے جمع کردہ خزانوں میں نہیں، کائنات میں آپ کے فیض و عطا کی گونج میں پنہاں ہے۔ نیز موت سے ماورا صرف وہی چیز ہے جو آپ نے اس دنیا کو اپنا حصہ بنا کر واپس لوٹا دی۔ لہذا آگے بڑھیں اور اس گونج کا حصہ بنیں۔۔۔۔!

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔