دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

اسلامی تہذیب — ماضی، حال، اور مستقبل

اسلامی تہذیب — ماضی، حال، اور مستقبل
اسلامی تہذیب — ماضی، حال، اور مستقبل
عنوان: اسلامی تہذیب — ماضی، حال، اور مستقبل
تحریر: محمد سجاد علی قادری ادریسی
پیش کش: بزم ضیاے سخن، اتر دیناج پور، بنگال

اسلامی تہذیب کی معنویت اور امتیاز

تہذیب ایک ایسا لفظ ہے جب وہ کسی کے لیے بولا جائے تو اس کا تشخص تمام تر خوبیوں کے ساتھ ذہن کے پردے پر رونما ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ تہذیب کا معنی ہی آراستگی، صفائی، اصلاح ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا گہوارہ ہے جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے۔ انسان کا تشخص قائم ہوتا ہے۔ اس کا تعلق انسان سے اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان۔

انسانوں کے درمیان خیالات، اقدار، ادارے، تعلقات اور نظام ہائے زندگی یہ سب اسی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر قوم، ملت، مذہب، ملک کی اپنی اپنی تہذیب ہے اور وہ عروج و زوال سے دوچار بھی ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔

اسلامی تہذیب بھی، انسانی تہذیبوں کے دراز سلسلہ کی ایک کڑی ہے، یہ اپنی ٹھوس بنیادیں، زبردست اثر انگیزی اور افادہ عام کی بنا پر دیگر تہذیبوں سے ممتاز ہے کیوں کہ یہ وہ تہذیب ہے جس کا پیغام عالم گیر، جس کا خمیر انسانیت نوازی، جس کی ہدایات و توجیہات اخلاقی قدروں کے پاس دار ہے اور جس کے اصول وضوابط حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔

اسلامی تہذیب کا آغاز — عہدِ نبوت و خلافتِ راشدہ

اسلامی تہذیب کا آغاز مکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت سے ہوا اور مدینہ میں اسلامی حکومت کے قیام سے اس نے ترقی پائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ظہور اسلام سے قبل اہل عرب تہذیب و تمدن کے نام سے واقف بھی نہ تھے۔

ایسے زمانے میں جب لوگ دنیا پرست، مختلف مذاہب کے پیروکار، گوناگوں خواہشات اور طریقوں کے حامل تھے۔ کچھ خدا کو مادی چیزوں کے ساتھ تشبیہ دیا کرتے اور کچھ خدا کے مقدس اسما کا انکار کرتے ہوئے انہیں بتوں کے ساتھ جوڑتے تھے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خشک اور خانہ بدوشوں کی سرزمین پر تمدن کے بیج بوئے۔ وہاں کے سخت مزاج لوگوں کے دلوں میں توحید، اخوت، احساس، ہمدردی، علم، عمل، محبت اور دوستی کے وہ چراغ جلائے جن کی لو قیامت تک کم نہیں ہوگی۔

رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد خلافت راشدہ کا آغاز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت سے ہوکر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دست برداری پر ختم ہوئی۔ اس دوران اسلامی بیت المال کا نظام قائم کیا گیا اور بہت ساری معاشی اصلاحات کی گئیں۔ مفتوحہ زمینوں کے حوالے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اہم اقدامات اور فیصلے کیے۔ اجتماعی خوش حالی یہاں تک ہوگئی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوئی زکوٰة لینے والا نہیں تھا۔ امارت مسلمہ کی یک جہتی اور وحدت کی بنیاد رکھی گئی اور بلاتفریق عدل و انصاف کی روایات قائم کی گئیں۔ خلافت راشدہ کے دور میں ایک منظم ریاست کی تشکیل عمل میں آئی۔ جس سے اسلامی تہذیب و تمدن نے ترقی کی نئی بلندیوں کو چھوا۔

اسلامی علوم و فنون کا سنہرا دور

پھر یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا اور توحید کے متوالوں نے وہ خدمات انجام دیے جن کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔

اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں قائم ہونے والی سلطنتوں نے نہ صرف مسلم دنیا، بل کہ عالمی تہذیب و تمدن پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان سلطنتوں کا سنہرا دور نہایت وسیع اور ہمہ جہت تھا، جس میں سیاسی استحکام، علمی ترقی اور سماجی اصلاحات کے نمایاں پہلو شامل ہیں۔

اس دوران اسلامی فنونِ تعمیر، قانون اور معاشرتی انصاف کی جو مثالیں قائم ہوئیں، وہ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں نظر آتی ہیں۔ اسلامی سلطنتوں نے جہاں داخلی طور پر عدل و مساوات اور مذہبی رواداری کو فروغ دیا، وہیں بیرونی سطح پر عالمی تہذیب کے فروغ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی کامیابیاں انسانی تاریخ کے وہ سچا باب ہیں جو جدت، عدل اجتماعی، استحکام اور ترقی کے لیے ایک عالم گیر ماڈل فراہم کرتا ہے۔

اسلامی تہذیب کی نمایاں خصوصیات

یوں تو اسلامی تہذیب اپنے جلو میں ہزارہا خوبیوں اور خصوصیات کو سموئے ہوئے ہے؛ مگر ہم صرف اس کی اہم، مرکزی اور بنیادی خصوصیات کو سپردِ قرطاس کریں گے اور ان شاء اللہ اسی سے تہذیبِ اسلامی کی تمام اگلی و پچھلی تہذیبوں پر برتری و بہتری آشکارا ہو جائے گی۔

روحانیت اور اخلاق: انسان روح اور جسم کا جامع ہے اور ان دونوں کا گہرا تعلق ہے۔ اسلام نے ان دونوں کو سنوارا ہے۔ اس لیے کہ روحانیت کا تعلق باطن سے ہے اور اگر باطن نکھر جائے تو ظاہر خود بخود سنور جاتا ہے۔ اور ہمارا باطن اسی وقت درست رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تزکیہ نفس، خود کو پاکیزہ کرنے پر قرآن پاک نے کامیابی کی ضمانت دیا اور ارشاد فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ [الأعلى: 14]

بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا۔ (کنزالایمان)

اور یہ جب ہی ہوگا جب یہ یقین ہو کہ ہمارا کوئی بھی حال اس خالق کائنات سے کبھی پوشیدہ نہیں۔

چناں چہ ظاہر اور باطن کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم گویا ہے:

وَ هُوَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الْاَرْضِؕ-یَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ یَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ [الأنعام: 3]

اور وہی اللہ ہے آسمانوں کا اور زمین کا اسے تمہارا چھپا اور ظاہر سب معلوم ہے اور تمہارے کام جانتا ہے۔ (کنزالایمان)

علم و عدل کا امتزاج: ایک کامیاب معاشرہ کی یہ دونوں سب سے اہم ستون ہیں علم کے بغیر انسان علم کی بہت سارے معاملات پیچھے رہ جاتے ہیں اور علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ قرآن سب سے پہلے پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے نازل ہوا اور فرمایا:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ [العلق: 1]

پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا (کنزالایمان)

فَسْــٴَـلُـوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ [الأنبياء: 7]

تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں (کنزالایمان) اور عدل کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:

بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ [الحجرات: 9]

عدل کرو بے شک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں۔ (کنزالایمان)

مساوات و اخوت کا نظام: یہ وہ آفاقی خصوصیت ہے جو دنیا کی کسی تہذیب میں نہیں ملتی جس بنا پر دنیا کی تمام تہذیبوں پر اسلامی تہذیب فوقیت رکھتا ہے۔ وہ بیماری جس کی وجہ سے پوری دنیا اونچ، نیچ، ذات، نسب میں الجھی ہوئی تھی بہت ہی خوب صورتی سے اسلام نے اسے ختم کر دیا۔ ارشاد ربانی ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْم einzel خَبِیْرٌ [الحجرات: 13]

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔ (کنزالایمان)

اخوت، بھائی چارگی، مساوات کا پیغام دیتے ہوئے سب کو اتفاق و اتحاد کا درس دیتے ہوئے ارشاد ہوا:

وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪ [آل عمران: 103]

اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا) (کنزالایمان)

عالمی تہذیبوں کی تاریخ میں ہماری تہذیب کی یہ چند امتیازی خصوصیات ہیں، جب دنیا حکومت و سلطنت، علم و حکمت اور قیادت و سیادت ہر میدان میں ہمارے زیر نگیں تھی، تو انھیں خصوصیات کی بنا پر ہماری تہذیب ہر قوم و مذہب کے باشعور اور ذہنِ رسا رکھنے والے افراد کے قلوب کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی تھی۔

اسلامی تہذیب پر زوال کے اسباب

جب اس کا زور جاتا رہا، اس کو گلے لگانے والے اپنی سیہ کاریوں کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہوگئے اور اس کے بالمقابل دوسری تہذیبیں رونما ہوئیں، تو ہماری تہذیب کی قدر و قیمت پر دنیا کی نگاہیں مختلف انداز سے اٹھنے لگیں؛ چنانچہ کچھ لوگ اس کی ہرزہ سرائی کرنے لگے، تو کچھ مدح سرائی اور کچھ لوگ اس کے فضائل شمار کرانے لگے تو کچھ لوگ اس کے رذائل غرض کہ جتنے منھ اتنی باتیں۔

موجودہ دور میں اسلامی تہذیب کی صورتِ حال

مگر افسوس کہ آج علم دین سے دوری، علمائے کرام کی نا قدری، فیشن کی پر فریب دنیا کی طرف رجحانات اور میڈیا و سوشل میڈیا کا غلط استعمال نے ہمیں ہمارے تہذیب سے کوسوں دور کر دیا۔

اسلامی تہذیب کی بقا کے لیے ضروری اقدامات

آج اسلامی تہذیب کو اجاگر کرنا وقت کا ایک اہم ترین تقاضا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

لہٰذا ہر اعتبار سے اسلام کی خوب صورتی اور افادیت، مغربی تہذیب کی فریب کاری اور نقصانات کو ہر چینلز، ممبر، جلسہ، محفلوں میں تحریری و تقریری دنیاوی و دینی معاشی اور سائنسی ہر اعتبار سے ظاہر کرنا اور خوب واضح کرنا ضروری ہے۔

اسلام ہمیشہ کے لیے رہ نمائے انسانیت رہا ہے اور رہے گا۔ اسلامی تہذیب کو اگر اپنا لیا جائے تو پوری کائنات میں امن و امان کی فضا قائم ہو جائے۔

اللہ تبارک و تعالٰی جملہ مومنین کو اسلامی تہذیب کو اپنانے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین و آلہ و صحبہ اجمعین

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔