دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

علمِ دین — چراغِ جاوداں، نجات کا کارواں

علمِ دین — چراغِ جاوداں، نجات کا کارواں
عنوان: علمِ دین — چراغِ جاوداں، نجات کا کارواں
تحریر: محمد ظفر اللہ ضیاء رضوی، اتر دیناج پور، بنگال
پیش کش: بزم ضیاے سخن، اتر دیناج پور، بنگال

علم، انسانی روح کی آنکھ ہے، دل کی روشنی ہے، اور زندگی کی رہ نمائی کا وہ چراغ ہے جو ہر تاریکی کو چیر دیتا ہے۔ یہ نہ صرف جہالت کے اندھیروں کو ختم کرتا ہے بل کہ دل و دماغ کو منور کر کے شخصیت کو نکھارتا ہے۔ دنیا کے علوم اپنی جگہ قابلِ احترام ہیں، مگر علمِ دین کی اہمیت اس روشنی کی مانند ہے جو چودھویں رات کے چاند سے بھی روشن اور صدیوں کی تاریکیوں کو پل بھر میں منور کر دینے والا ہے۔

علومِ دین وہ انوار ہیں جو انسان کو اپنے خالق کی معرفت عطا کرتے ہیں، دنیا کی فانی زندگی سے لے کر آخرت کی ابدی کام یابی تک راہ نمائی کرتے ہیں۔ یہ علم ایک ایسا سفینہ ہے جو طوفانی سمندروں میں بھی محفوظ راہ دکھاتا ہے، ایک ایسا چراغ ہے جو اندھیروں میں نہ صرف راستہ دکھاتا ہے بل کہ دلوں میں سکون و ہدایت کی کرنیں بکھیرتا ہے۔

دنیاوی علوم انسان کی زندگی میں سہولت، ترقی اور آرام فراہم کرتے ہیں۔ ایک طبیب بیمار کو شفا دیتا ہے، ایک انجینئر انسان کی سہولتوں کا ضامن بنتا ہے، اور فلسفی ذہنوں کو روشن کرتا ہے۔ لیکن علمِ دین وہ خزانہ ہے جو نہ صرف دل و دماغ کو منور کرتا ہے بل کہ روح کی پیاس بھی بجھاتا ہے، انسان کو خالق کے قرب میں پہنچاتا ہے، اور آخرت کی کام یابی کی ضمانت دیتا ہے۔

علمِ دین ایک روشن چراغ ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتا ہے۔ یہ ایسی باد نسیم ہے جو دل کی ویرانیوں میں زندگی کا پیام بکھیرتی ہے، اور ایسا پانی ہے جو دل کی باغ بانی کو سرسبز و شاداب کرتا ہے۔ جس کے پاس یہ چراغ ہے، وہ کبھی بھٹکتا نہیں، ہر قدم پر استقامت اور بصیرت کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ لیکن جو انسان علمِ دین سے محروم ہے، وہ ایک مسافر کی مانند ہے جس کے پاس نہ سمت نما ہے اور نہ زادِ راہ، وہ اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا ہے اور جہالت کے گرداب میں ڈوبتا جاتا ہے۔

قرآنِ پاک نے علم کی اہمیت بار بار اجاگر کی ہے:

﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾ [الزمر: 9]

ترجمہ: کہہ دو! کیا علم والے اور انجان برابر ہو سکتے ہیں؟

﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُ﴾ [الفاطر: 28]

ترجمہ: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔

یہ آیات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ علم انسان کو معرفتِ الٰہی کے درجے تک پہنچاتا ہے اور دل میں خشیت پیدا کرتا ہے، جو اعمال کو سنوار کر انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھتی ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

﴿خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ﴾ [امام بخاری، بخاری شریف: ج2، کتاب فضائل القرآن، حدیث: 5027]

ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔

ایک اور حدیث میں فرمایا:

عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت [ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، ج:3، ص:444، الحدیث: 3641]

ترجمہ: عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت۔

یہاں علم اور عبادت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ عابد صرف اپنی عبادت میں مصروف رہتا ہے، مگر عالم نہ صرف عبادت کرتا ہے بل کہ دوسروں کو بھی راہِ حق دکھاتا ہے۔

آج کے پُرفتن دور میں جہاں الحاد، مادیت پرستی اور دینی بے راہ روی کے طوفان ہیں، علمِ دین ہی وہ قلعہ ہے جو ایمان کو محفوظ رکھتا ہے۔ علم کے بغیر انسان نہ عبادات صحیح ادا کر سکتا ہے، نہ معاملات میں درست رہ سکتا ہے، اور نہ ہی اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتا ہے۔ لاعلمی کبھی کبھار انسان کو کفر کی جانب لے جاتی ہے اور وہ خود اس سے بے خبر رہتا ہے۔

وضو کے ہر قطرے میں پاکیزگی کی مہک، نماز کے ہر سجدے میں عاجزی اور خشوع، نکاح و طلاق کے ہر حکم میں زندگی کی بصیرت، سب کا راز علمِ دین میں مضمر ہے۔ علم کے بغیر یہ سب محض ڈھانچے ہیں، روح سے خالی، گھر کی مانند جو اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔

علمِ دین انسان کو اپنی اصلاح اور قوم کی فلاح کا ذریعہ بناتا ہے۔ جو شخص لاعلم ہے، وہ زہر گھولے گا، فساد پھیلائے گا اور نسلوں کو گم راہی کی جانب دھکیل دے گا۔ علم معاشرت کے قصر کی بنیاد ہے۔ جب گھروں میں علم کا چراغ روشن ہو تو وہ گھر ایمان کی جنت بن جاتے ہیں، اور دلوں میں روشنی ہو تو وہ دل معرفت و سکینت کے باغ بن جاتے ہیں۔

علم، عقل کو جلا دیتا ہے اور معرفت دل کو حرارت عطا کرتی ہے۔ یہ دونوں مل کر انسان کو چراغِ ہدایت اور پیکرِ خیر و نیکی بناتے ہیں۔ دنیاوی علوم بھی حاصل ہوں، مگر شریعت کے تابع۔ جب دنیاوی علم علمِ دین کے سایہ میں ہو تو انسانیت کے لیے باعثِ خیر و برکت بنتا ہے۔

آئیے ہم عہد کریں کہ اپنی زندگی کو علمِ دین کے انوار سے روشن کریں، اپنی اولاد اور معاشرے کو قرآن و سنت کی روشنی دیں، اور گھروں میں ایسے چراغ جلائیں جو نسلوں تک روشنی پھیلائیں۔

بالآخر میں رب قدیر کی بارگاہِ اقدس میں دعا گو ہوں کہ:

یا اللہ! ہمیں نافع علم عطا فرما، ایسا علم جو ہماری دنیا اور آخرت کی نجات کا سبب بنے، ہمارے ایمان کو مضبوط کرے، اعمال کی درستگی نصیب کرے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔