دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

سکون کہاں ملے گا؟

سکون کہاں ملے گا؟
سکون کہاں ملے گا؟
عنوان: سکون کہاں ملے گا؟
تحریر: محمد توصیف رضا عطاری

آج جب ہم نگاہ اٹھاتے ہیں اور اس ترقی یافتہ دور کو دیکھتے ہیں کہ سالوں کا کام اب مہینوں میں، مہینوں کا کام دنوں میں، اور دنوں کا کام گھنٹوں میں، گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح دورِ قدیم میں جو سہولتیں بادشاہوں کو میسر تھیں، جیسا کہ ہوا کے لیے پنکھے، پینے کے لیے ٹھنڈا پانی، سفر کے لیے تیز رفتار گھوڑا، خزانوں کی حفاظت کے لیے کثیر تعداد میں تالے اور چابیاں۔ آج کے دورِ جدید میں وہ سہولتیں عام سے عام لوگوں کو بھی میسر ہیں۔ جیسا کہ ہوا حاصل کرنے کے لیے پنکھے، کولر، اے سی، ٹھنڈا پانی کے لیے فریج، سواری کے لیے موٹر سائیکل، کار، مال و دولت کی حفاظت کے لیے بینک لاکر اور اے ٹی ایم کارڈز۔ الغرض آج دنیا بہت ترقی حاصل کر چکی ہے، لیکن اس کے باوجود آج کا انسان پھر بھی خوش کیوں نہیں ہے؟ آج کا ایک شخص جس کو ہر طرح کی سہولتیں میسر ہیں، پھر بھی اس کا دل مطمئن کیوں نہیں؟ آج آپ کسی بھی ملک، قوم یا کسی بھی فرد کو دیکھیں تو یہی نظر آئے گا کہ ہر طرف بے چینی اور بے سکونی پھیلی ہوئی ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج ہمیں سکون جہاں تلاش کرنا چاہیے وہاں نہیں، بلکہ کہیں اور تلاش کر رہے ہیں۔ آج ہم سکون صرف مال و دولت، بڑے بنگلے، مہنگے موبائل، مہنگی گاڑیوں، دنیا کی عارضی اور فانی کامیابیوں میں تلاش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان چیزوں سے حاصل ہونے والا سکون، ان چیزوں سے ملنے والی خوشی عارضی ہے جو بہت جلد ختم ہو جاتی ہے۔

پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان چیزوں میں سکون نہیں تو پھر کس چیز میں ہے؟ اسی کا جواب دیتے ہوئے خالقِ کائنات جل جلالہ ارشاد فرما رہا ہے:

اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنَّ الْقُلُوبُ [الرعد: 28]

ترجمۂ کنز الایمان: سن لو! اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل اور اس کے احسان و کرم کو یاد کرکے بے قرار دلوں کو قرار اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

اسی طرح پریشان لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے اور نیک لوگوں کو خوش خبری سناتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ [الطلاق: 3]

ترجمۂ کنز الایمان: اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اُسے کافی ہے۔

یہ آیتِ کریمہ بتا رہی ہے کہ ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے اور اپنے تمام کاموں میں اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ پریشان حالوں، مصیب زدوں، ناکامیوں سے دوچار ہونے والوں، بے چین رہنے والوں، غرض سب کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام امور اللہ تبارک و تعالیٰ کے سپرد کر دے اور کہے: یا اللہ عز و جل! ہمیں ہر حال میں تجھی پر بھروسہ ہے۔ تو ہمارے بھروسے کی لاج رکھ لینا۔

در اصل بات یہ ہے کہ جب ہم سب کچھ اپنے قابو میں سمجھنے لگتے ہیں، پھر کبھی کوئی کام نہیں ہو رہا ہوتا، تب ہمیں بے چینی شروع ہو جاتی ہے۔ اگر ہم اس وقت یہ یاد کر لیں کہ سب کچھ اللہ پاک کی دستِ قدرت میں ہے، وہ جسے جو چاہے دے گا، جس سے جو چاہیے لے گا، جسے چاہے عزت دے گا، جسے چاہے ذلت دے گا، تب آپ دیکھیں گے کہ آپ کے دل کو کتنا سکون و چین حاصل ہوگا۔

سکون دلانے والے چند امور

معزز قارئین! "ذکرِ الٰہی اور توکل علی اللہ" کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے امور ہیں کہ اگر بندہ پریشانی کے وقت ان امور کو بجا لائے تو اس کو کافی حد تک سکونِ قلب حاصل ہو جائے گا۔ جیسا کہ مشہور حدیثِ پاک ہے کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی غم یا کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو آپ نماز میں مشغول ہوجاتے:

عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى [ابو داود، ج: 2، ص: 54، حدیث: 1319]

یعنی جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملے میں پریشانی یا تکلیف لاحق ہوتی تو آپ نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے۔

نیچے چند امور ذکر کیے جاتے ہیں

نماز

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ [النسائی، ج: 7، ص: 61، حدیث: 3940]

ترجمہ: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔

ذکر و دعا

ذکرِ الٰہی انسان کے دل کو زندہ کر دیتا ہے۔ جو اللہ کو یاد کرتا ہے اس کا دل پرسکون ہو جاتا ہے۔

مَثَلُ الَّذِيْ يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِيْ لَا يَذْكُرُهُ، مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ [صحیح بخاری، ج: 8، ص: 86، حدیث: 6407]

ترجمہ: اس شخص کی مثال جو ذکر اللہ میں مشغول رہتا ہے اور اس کی مثال جو ذکر نہیں کرتا، زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ یعنی ذکر کرنے والے کا دل گویا کہ زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والے کا دل گویا کہ مردہ ہے۔

قناعت و شکر گزاری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ [صحیح مسلم، ج: 3، ص: 100، حدیث: 1051]

ترجمہ: مالداری کثرتِ مال سے نہیں، بلکہ مالداری دل کی بے نیازی سے حاصل ہوتی ہے۔

والدین کی خدمت

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

رِضَا اللَّهِ فِي رِضَا الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ [ترمذی، ج: 3، ص: 464، حدیث: 1899]

ترجمہ: اللہ پاک کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ والدین کی دعا اور خوشنودی سکون کا خزانہ ہے۔

دوسروں کے لیے وہی پسند کرنا جو اپنے لیے کرتے ہیں

حدیث:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ أَوْ قَالَ: لِجَارِهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ [صحیح مسلم، ج: 1، ص: 49، حدیث: 45]

ترجمہ: تم میں سے اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ دوسروں کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔ مطلب: دل کو سکون تب ملتا ہے جب انسان حسد کرنے کے بجائے دوسروں کے لیے خیر خواہ ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی دیگر ذرائع ہیں جن کو کرنے سے انسان کے دل میں سکون اور خوشی داخل ہوتی ہے۔

پتہ چلا کہ دل کا سکون نہ کثرتِ مال میں ہے اور نہ ہی بڑی بڑی کامیابیوں میں۔ دل کا سکون صرف اللہ و رسول کی رضا والے کاموں کو کرنے اور ناراضی والے امور سے بچنے میں ہے۔ اسی لیے دنیاوی کامیابی بھی حاصل کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نیکی والے کاموں میں بھی مشغول رہیں۔

اللہ جل جلالہ کی بارگاہِ عالیہ میں دعا ہے کہ ہمیں دلی سکون نصیب فرمائے اور دونوں جہان میں کامیابیوں سے سرفراز فرمائے۔ اور کاش ایسا کرم ہو جائے کہ ہماری زبانیں ذکر و درود سے تر رہیں۔ آمین، بجاہِ سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔