عنوان: | باوفا آئینے کا اعجاز |
---|---|
تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
پیش کش: | ادارہ لباب |
یہ کائناتِ رنگ و بو فطرت کے اٹل قوانین کا ایک مسحور کن شاہکار ہے، جہاں ہر شے ایک مخصوص دائرہ، ایک مقررہ جبلت اور ایک طے شدہ سرشت کی پابند ہے۔ کواکب اور سیارگان اپنے وسیع و عریض مداروں میں قید ہو کر لامتنہی مسافتیں طے کر رہے ہیں؛ ان کے لیے اپنے دائرۂ کار سے انحراف ایک ناممکن امر ہے۔ ہر وجود اپنی تخلیقی سرشت کے حصار میں مصروفِ عمل ہے۔
لیکن ذرا آئینے کی جبلت پر غور کریں، جس کی سرشت میں بے وفائی کا لازوال طلسم پنہاں ہے۔ اس کی لوحِ سینہ پر ثبات کا کوئی نشان نہیں؛ یہ محض ناظر کی پرستش کرتا ہے، جو بھی اس کے سامنے جاتا ہے وہ اسی کا عکس اپنے سینے میں محفوظ کر لیتا ہے، اور ہر نئی جھلک پر پرانی جھلک کو فراموش کر دیتا ہے۔
احبا! یہ تو عام آئینے کی سرشت ہے کہ وہ عارضی عکس کو فوری طور پر قبول کر لیتا ہے۔ مگر ذرا نگاہِ عقیدت و محبت سے دیکھیے، ایک عدیم المثال اور باوفا آئینہ ایسا بھی ہے جس نے اپنی فطرت کے خلاف وفا نبھائی ہے، اور اپنی جبلت کو عشق کی بھٹی میں جلا کر خود کو وفا کا کندن بنا لیا۔ یہ وہ وفا ہے جو دنیائے ہستی کے لیے مثالِ جاوداں ہے، اور ایک ایسا درسِ کامل جس کے سامنے زمان و مکان سر خم کر دیتے ہیں۔
کیوں نہ ہو آئینہ کا عدیم المثال ہونا، صاحبِ آئینہ کے عدیم المثال ہونے ہی کا نتیجہ ہے۔ مثال تو کیا، جن کی ذات تک سایہ کو بھی راہ یابی نہیں؛ یعنی خسروِ خوباں، سیاحِ لامکاں، باعثِ کن فکاں، شمعِ قلبِ عاشقاں، قبلۂ ایمان و ایقاں، مونسِ بے چارگاں، تاجدارِ مرسلاں، روحِ رواں، فداہ ابی و امی ﷺ کا آئینۂ مبارک۔
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے روح المعانی میں معجزۂ عشق پر دلالت کرنے والی اس روایت کو نقل فرمایا ہے:
روي أن بعض الصحابة أحب أن يرى رسول الله ﷺ، فجاء إلى ميمونة فأخرجت له مرآته فنظر فيها فرأى صورة رسول الله عليه الصلاة والسلام ولم ير صورة نفسه، فهذا كالظهور الذي يدعيه الصوفية إلا أنه بحجاب المرآة، وليس من باب التخيل الذي قوي بالنظر إلى مرآته عليه الصلاة والسلام، وملاحظة أنه كثيرا ما ظهرت فيها صورته حسبما ظنه ابن خلدون. (روح المعانی، تحت سورة الأحزاب، ص: ۲۱۷، دار الکتب العلمیة، بیروت)
رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو آپ ﷺ کی یاد نے بے کل و بے قرار کیا۔ جدائی کا غم غالب آیا اور شوقِ دید نے آتشِ سوزاں کے شرارے پھونک دیے۔ رخِ والضحی کو دیکھنے کی حسرت نے بے قراری سے بے خودی کی راہ اختیار کر لی، اور وارفتگیِ شوق نے بے تاب و جاں بلب کیا۔ تو وہ اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور التجا کی کہ: مجھے وہ آئینہ دکھائیے، جسے دیکھ کر آقا ﷺ کنگھی فرمایا کرتے تھے، زلفِ واللیل میں تیل لگایا کرتے تھے، اپنے کاکل و زلف کو سنوارا کرتے تھے۔
یہ ان پر آقا ﷺ کی محبت کا غلبہ تھا کہ چہرۂ والضحی نہ سہی، اس آئینے کو ہی دیکھ کر اپنی آتشِ عشق کو ٹھنڈک پہنچا لوں، جس آئینے میں آقا ﷺ اپنا رخِ تاباں ملاحظہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو ان کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے وہ آئینہ پیش کیا۔ اور انہوں نے جب اس آئینے میں جھانکا تو کیا دیکھا؟ معجزۂ عشق، تجلّیِ الفت، اعجازِ محبت، کرامتِ وارفتگی، طلسمِ بے خودی! اس آئینۂ باوفا میں انہیں اپنا عکسِ ناتواں نہیں، بلکہ چہرۂ والضحی ہی نظر آیا۔
گویا وہ آئینہ بھی حضور ﷺ کا عاشق و گرویدہ ہو چکا تھا، کہ اس نے ایک بار چہرۂ والضحی کو دیکھ لیا تو پھر اس آئینے نے بھی یہی کہا:
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
جیسے میرے سرکار ﷺ ہیں، ویسا نہیں کوئی
عزیزو! اس ذات پر قربان، جن کی بارگاہِ ناز میں اشیاء اپنی فطرت کے خلاف ظہور میں آتی ہیں۔ جس بارگاہ میں چیزیں اپنی جبلتیں بصد شوق و ذوق ترک کر دیتی ہیں، یہی وہ بارگاہِ ناز ہے جہاں کون و مکاں کی ہر شے جبینِ نیاز خم کرتی ہے۔
حضور ﷺ سے والہانہ محبت و رأفت، الفت و چاہت اور عقیدت و ارادت میں جب ایک آئینے کا یہ حال ہے، تو ہمارے قلوب جن میں نورِ محمدی ﷺ کی شعائیں جلوہ فگن ہیں، وہ جب تک حضور کی شدتِ محبت کی غذا حاصل نہ کر لیں، ان کی اضطرابی کا کوئی سامان نہیں ہو سکتا۔
لہٰذا آئیں! ہم اپنے قلوب کو کثافت سے پاک کریں، اور پھر اس دل میں محبوب ﷺ کی صورت بسا لیں۔ اس آئینے کی طرح، جس میں خیالِ غیر تک کو راہ یابی نہ ہو۔ اس طور پر کہ ہمارے قلوب اور ہماری روحوں میں بس یہی گونج رقصاں ہو:
دل میں نظر میں آنکھ میں بس تو ہی تو رہے
اس کے سوا نہ اور کوئی آرزو رہے
اللہ رب العزت ہمارے قلوب کو عشقِ رسول ﷺ سے سرشار و تابدار فرمائے۔