| عنوان: | مہنگائی کے دور میں علمائے کرام کی کم تنخواہیں |
|---|---|
| تحریر: | محمد ظفر اللہ ضیاء رضوی، اتر دیناج پور، بنگال |
| پیش کش: | بزم ضیاے سخن، اتر دیناج پور، بنگال |
دینی طبقات ہمیشہ سے امتِ مسلمہ کی روحانی اور اخلاقی قیادت کرتے آئے ہیں۔ خصوصاً مولانا حضرات، جو قوم کی علمی، اخلاقی، اور دینی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، وہ مساجد، مدارس اور دیگر دینی اداروں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دور میں ان کی خدمات کے بدلے میں جو معاوضہ دیا جاتا ہے، وہ مہنگائی کے بے رحم طوفان کے سامنے ایک بے بسی کی تصویر بن چکا ہے۔
آج جب کہ آلو، پیاز، آٹا، دودھ، چینی، کپڑا، کرایہ، دوا، علاج، بجلی، گیس، بچوں کی تعلیم، سب کچھ مہنگا ہو چکا ہے، ایسے حالات میں کسی مولوی یا امام کو ۸ یا ۹ ہزار ماہانہ پر تنخواہ دینا نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہے بلکہ غیر انسانی بھی ہے۔ یہ رقم تو کسی مزدور کے بھی بنیادی اخراجات کے لیے ناکافی ہے، چہ جائیکہ ایک عالمِ دین جو کئی سال کی محنت اور ریاضت کے بعد فارغ ہوتا ہے، اسے اس معمولی رقم پر گزارہ کرنے پر مجبور کیا جائے۔
اگر ہم تحقیق کی روشنی میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ:
- ایک دینی طالب علم کم از کم ۱۰ تا ۱۲ سال کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔
- وہ علمِ قرآن، حدیث، فقہ، عقائد، ادب، منطق، فلسفہ، تفسیر اور دیگر علوم میں مہارت حاصل کرتا ہے۔
- وہ قوم کے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، مساجد کو آباد رکھتا ہے، جنازے، نکاح، دعائیں، اصلاحی مجالس، فتوے، اور دیگر دینی امور انجام دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس سارے کام کا صلہ صرف ۸۰۰۰ یا ۹۰۰۰ روپے ہونا چاہیے؟ یہ تنقید اس لیے نہیں کہ علما دنیاوی مال کے بھوکے ہیں، بل کہ اس لیے ہے کہ ایک گھر کو چلانے کے لیے کم از کم اخراجات بھی درکار ہوتے ہیں۔ جب علمائے کرام فاقہ کشی، قرض داری، یا دوسروں کے محتاج ہوں گے تو وہ روحانی قیادت کس دل سے کریں گے؟ ان کے بچے مناسب تعلیم کیسے پائیں گے؟ وہ خود مطالعہ، تحقیق اور تصنیف کے لیے وقت کیسے نکال پائیں گے؟ بدقسمتی سے بعض دینی ادارے اس استحصالی نظام کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اور بعض مخیر حضرات علما کی غربت کو تقدس سے تعبیر کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک سماجی ناانصافی ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔
تنخواہوں کو بڑھانے کے لیے چند مؤثر طریقے:
- دینی ادارے کم از کم تنخواہ کا ایک واضح نظام مرتب کریں۔
- مقامی سطح پر علما فنڈز کا قیام ہو۔
- مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ صرف عمارتوں کی تعمیر پر نہ بل کہ علما کی کفالت پر بھی توجہ دیں۔
- حکومتوں کو چاہیے کہ علمائے کرام کو بھی قومی خدمت گزار سمجھتے ہوئے ان کے لیے وظائف یا اسکالرشپس متعین کرے۔
- قوم کے افراد کو اس بات کا شعور دیا جائے کہ علمائے کرام کا استحصال ترک کریں اور ان کی عزتِ نفس کے مطابق ان کے اخراجات کا بندوبست کیا جائے۔
بالآخر علمائے دین ہمارے سر کے تاج ہیں، ان کے دم سے قوم میں ایمان و یقین باقی ہے۔ اگر ہم نے ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھا تو آئندہ نسلوں کو شاید ایسے علما میسر نہ ہوں جو خلوصِ دل سے دین کی خدمت کریں۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کریں اور علما کو وہ مقام، احترام اور معاشی سہولتیں دیں، جن کے وہ واقعی حق دار ہیں۔
