دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

اسلام میں علم کی اہمیت اور عورت کے لیے دینی و دنیاوی تعلیم

عنوان: اسلام میں علم کی اہمیت اور عورت کے لیے دینی و دنیاوی تعلیم
تحریر: سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

اسلام میں علم حاصل کرنے کو بے حد اہمیت دی گئی ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ دینی علم حاصل کرے تاکہ اپنی آخرت کو سنوار سکے اور اللہ کے قریب ہو۔ وہ علم جو دین کے اصول، عبادات، اخلاقیات اور معاملات کی صحیح رہنمائی فراہم کرتا ہے، سب پر فرض ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس علم کی ترغیب دی، اس کا مقصد انسان کی شخصیت کو مضبوط کرنا اور معاشرت میں بہترین کردار ادا کرنے کے قابل بنانا تھا۔

آج کے دور میں تعلیم کے معنی اور طریقے کافی بدل گئے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں جو تعلیم دی جاتی ہے، وہ زیادہ تر دنیاوی علوم، ہنر، پیشہ ورانہ مہارت، اور فنون پر مبنی ہے۔ یہ علم بذاتِ خود نہ اچھا ہے نہ برا؛ بلکہ اس کا دارومدار اس کے مقصد اور استعمال پر ہے۔ اگر یہ علم دینی اصولوں یا معاشرتی بھلائی کے لیے حاصل کیا جائے تو یہ جائز اور مفید ہے۔ مثال کے طور پر کمپیوٹر سائنس، آن لائن کورسز، اور دیگر جدید علوم وہ وسائل ہیں جنہیں عورت گھر بیٹھ کر پردے اور شرعی حدود کے ساتھ حاصل کر سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ معاشی خودمختاری اور ترقی میں بھی مدد ملتی ہے۔

ماضی میں مسلمان خواتین کا کردار اکثر گھریلو دائرے میں محدود رہا، لیکن ان خواتین نے دینی اور عملی علم حاصل کر کے معاشرت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مثلاً حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، جو دینی علوم میں ماہر تھیں اور اہل بیت کی تعلیمات کو پھیلانے میں نمایاں کردار رکھتی تھیں۔ ان کا علم اور کردار آج بھی خواتین کے لیے ایک مثالی نمونہ ہے۔ ان خواتین نے مردوں کے بے غیر اپنی تعلیم اور علم کی روشنی میں معاشرت میں اثر ڈالنے کی صلاحیت حاصل کی۔

آج کی خواتین، اگرچہ جدید ٹیکنالوجی اور دنیاوی تعلیم میں مشغول ہیں، انہیں بھی یہی راستہ اپنانا چاہیے۔ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پردے اور اسلامی حدود کا خیال رکھے، دنیاوی علوم کو دینی اصولوں کے خلاف استعمال نہ کرے، اور دینی علم کو ہمیشہ مقدم رکھے تاکہ ہر عمل اور ہر علم اللہ کی رضا کے مطابق ہو۔

جدید تعلیم اور پردے کا امتزاج

خواتین کے لیے ایک انمول موقع فراہم کرتا ہے۔ کمپیوٹر اور آن لائن تعلیم کے ذریعے عورت گھر بیٹھ کر جدید علوم حاصل کر سکتی ہے، مالی و علمی خودمختاری حاصل کر سکتی ہے، اور معاشرت میں اپنا مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے، جب کہ ماضی کی خواتین کی طرح علم کی روشنی میں اپنی شخصی اور معاشرتی عزت برقرار رکھتی ہے۔ یہ امتزاج نہ صرف خواتین کو تعلیمی لحاظ سے مضبوط بناتا ہے بلکہ انہیں معاشرتی طور پر بھی فعال اور باوقار بناتا ہے۔

ماضی اور حال کا موازنہ بھی اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ دینی اور دنیاوی علم کے امتزاج سے عورت کس حد تک ترقی کر سکتی ہے۔ ماضی کی خواتین دینی علم میں ماہر، گھر کے دائرے میں فعال، اور مردوں کے بغیر معاشرتی اثر رکھتی تھیں۔ آج کی خواتین دنیاوی علوم اور ہنر میں ماہر، جدید وسائل کے ذریعے گھر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، پردے میں رہ کر بھی معاشرتی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں مشترکہ اصول یہ ہے کہ دینی علم اور تقویٰ کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے، اور علم کا مقصد ہمیشہ اللہ کی رضا اور مفید کام ہونا چاہیے۔

اس لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران نہ صرف دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کریں بلکہ دینی علم کی بھی پابندی کریں۔ پردہ اور اسلامی حدود کا مکمل خیال رکھیں، دنیاوی علوم کو دین کے اصولوں کے خلاف استعمال نہ کریں، اور ہر عمل اور علم میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھیں۔

اس طرح عورت نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتی ہے بلکہ اپنے گھر، معاشرت، اور امت کے لیے بھی ایک مؤثر اور مفید کردار ادا کر سکتی ہے۔ دینی علم کے ساتھ دنیاوی ہنر اور جدید تعلیم کا امتزاج اسے معاشرت میں باوقار، خودمختار، اور علم میں مضبوط بناتا ہے، جو ایک متوازن اور اسلامی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔