عنوان: | زبان کی حفاظت |
---|---|
تحریر: | مفتیہ نازیہ فاطمہ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان میں زبان ایک عظیم نعمت ہے۔ زبان انسان کے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ یہی زبان انسان کو عزت کی بلندیوں تک بھی پہنچا سکتی ہے اور ذلت و رسوائی کے گڑھے میں بھی گرا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے زبان کے استعمال میں انتہائی احتیاط برتنے کی تعلیم دی ہے۔ انسان کے اکثر گناہ اسی زبان کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں زبان کی حفاظت پر خصوصی تاکید کی گئی ہے، کیونکہ یہی چھوٹی سی چیز بڑے بڑے فتنوں کا سبب بن سکتی ہے۔
زبان اللہ کی عطا کردہ ایسی نعمت ہے جو بغیر کسی قیمت کے ہر وقت انسان کے ساتھ ہے۔ لیکن یہ نعمت بعض اوقات انسان کے لیے آزمائش بھی بن جاتی ہے۔ جب انسان زبان کو قابو میں رکھتا ہے تو وہ اس کا ذریعۂ نجات بن جاتی ہے، اور جب اسے آزاد چھوڑ دیتا ہے تو یہی زبان جہنم کی طرف کھینچنے لگتی ہے۔ زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کبھی زخموں سے بھی گہرے نشانات چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم اپنی زبان کے ذریعے دوسروں کے دل نہ دکھائیں بلکہ ان کے لیے راحت و سکون کا پیغام بنیں۔
قرآن مجید میں کئی مقامات پر زبان کے غلط استعمال سے روکا گیا ہے۔ غیبت سے منع کیا گیا:
وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ (الحجرات: 12)
ترجمۂ کنز الایمان:
اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا۔
اور فرماتا ہے:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (ق: 18)
ترجمۂ کنز الایمان: کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔
احادیثِ مبارکہ میں زبان کے خطرات:
نبی کریم ﷺ نے زبان کے بارے میں بے شمار ارشادات فرمائے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس چھوٹی سی چیز کی کتنی بڑی اہمیت ہے۔
زبان ہی جہنم میں گرانے والی ہے۔
وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ، إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ (الترمذی: 2616)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کیا لوگوں کو ان کے چہروں کے بل یا نتھنوں کے بل جہنم میں گرایا جائے گا، مگر ان کی زبانوں کی کمائی کی وجہ سے؟
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ (البخاری: 6018)
ترجمہ: جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اُسے چاہیے کہ یا تو بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔
زبان کی حفاظت، جنت کی ضمانت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ، وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ، أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ (بخاری: 6474)
جو مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے دے (یعنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت)، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
اسلام نے زبان کے ذریعے ہونے والے کئی بڑے گناہوں سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
غیبت: کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے ایسی بات کرنا جو اگر وہ سن لے تو اسے ناگوار گزرے، غیبت ہے۔
چغلی: ایک کی بات دوسرے سے بیان کرنا تاکہ ان میں فساد پیدا ہو۔ یہ سخت حرام ہے۔
جھوٹ: قرآن میں جھوٹ کو گناہِ کبیرہ کہا گیا ہے اور حدیث میں فرمایا گیا کہ جھوٹ، نفاق کی علامت ہے۔
زبان کی حفاظت کے لیے چند مفید تدابیر:
- خاموشی کو اپنائیں جب تک مفید بات نہ ہو۔
- قرآن و سنت کے مطابق گفتگو کریں۔
- اچھی مجلس اختیار کریں، بُری مجلس زبان کو بگاڑتی ہے۔
- روزانہ خود احتسابی کریں کہ آج میں نے کیا بولا؟
- اللہ کا خوف دل میں زندہ رکھیں کہ ہر لفظ لکھا جا رہا ہے۔
زبان چھوٹی سی چیز ہے مگر اس کا اثر نہایت بڑا ہوتا ہے۔ ایک جملہ تعلقات توڑ دیتا ہے، ایک بات دلوں کو جوڑ دیتی ہے۔ یہی زبان جنت کی سیڑھی بن سکتی ہے اور یہی جہنم کا سبب بھی۔ ایک مؤمن کو اپنی زبان کی مکمل حفاظت کرنی چاہیے، ہمیشہ سچ بولنا چاہیے، غیبت، چغلی، جھوٹ، بہتان سے دور رہنا چاہیے، اور صرف وہی بات زبان سے نکالنی چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند ہو۔