دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

استغفارِ نبوی ﷺ کا فقہی اور صوفیانہ نقطۂ نظر

عنوان: استغفارِ نبوی ﷺ کا فقہی اور صوفیانہ نقطۂ نظر
تحریر: مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا
پیش کش: ادارہ لباب

شریعتِ اسلامیہ کا یہ ایک مسلمہ اور بنیادی عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں اور ان کی یہ عصمت منصبِ نبوت کا لازمی حصہ ہے۔ تو پھر ان کی معصومیت کا اندازہ — جو سیدُالانبیاء ﷺ ہیں — عقلِ انسانی سے بعید تر اور بالائے قیاس ہے۔

مراتب میں حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل و اعلیٰ اس خاکدانِ گیتی پر کوئی تشریف نہ لایا بلکہ فاطرِ حقیقی نے اپنے محبوب سے افضل و برتر کسی کو بنایا ہی نہیں۔ حضور صاحبِ لَوْلَاک ﷺ کے اوصاف و کمالات اور آپ ﷺ کے مراتبِ رفیعہ و مناصبِ جلیلہ سرحدِ ادراک سے ماورا ہیں۔ فہمِ انسانی میں وہ تاب و یارا نہیں کہ آپ ﷺ کی رفعتوں کو ناپ سکے۔

تقربِ الٰہی کا جو درجہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا، از آدم تا ایں دم کسی کو وہ قرب حاصل نہ ہوا۔ بارگاہِ ایزدی میں آپ ﷺ کا مقام و منصب سب سے اعلیٰ، منفرد اور یکتا ہے۔

مگر اس عصمت و مقام کے باوجود حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے استغفار فرماتے تھے اور آپ ﷺ اس قدر طویل قیام فرماتے کہ آپ کے قدمینِ مبارک میں ورم آجاتا، اور جب آپ سے سوال کیا جاتا تو آپ فرماتے:

أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا۔ (صحیح البخاری: 1130)

کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

یہ ان کی بندگی اور عبودیت کا حال ہے جن کی بارگاہِ ناز میں حضرتِ جبریلِ امین حاضر ہو کر عرض گزار ہوتے ہیں: یا رسول اللہ! آپ کا رب ارشاد فرماتا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْتُ الدُّنْيَا وَاَهْلَهَا لِاُعَرِّفَهُمْ كَرَامَتَكَ وَمَنْزِلَتَكَ عِنْدِي، وَلَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ الدُّنْيَا۔

بے شک میں نے دنیا اور دنیا والوں کو اس لیے پیدا فرمایا ہے تاکہ اے محبوب! میرے نزدیک آپ کی جو قدر و منزلت ہے وہ انہیں بتاؤں، اور اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو تخلیق نہ فرماتا۔

ایسی عصمت کے باوجود آپ ﷺ کا اتنی کثرت سے استغفار فرمانا کئی اسباب کا حامل ہے۔ اس حوالے سے فقہائے کرام نے فرمایا: کثرتِ استغفار حضور ﷺ کی عاجزی، تقربِ حق تعالیٰ اور اپنی عبدیت کے اظہار کے لیے تھا اور اس کا ایک اہم مقصد اپنی امت کو عملی پیغام دینا تھا کہ وہ استغفار کو اپنی حیات کا لازمی حصہ بنائیں۔ آپ فرماتے ہیں:

یَا أَیُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ، فَإِنِّي أَتُوبُ فِي الْیَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2702)

اے لوگو! اللہ کی طرف رجوع کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو، کیونکہ میں دن میں سو بار رجوع کرتا ہوں۔

آپ کا استغفار فی الواقع امت کو سکھانے کے لیے تھا۔ جبکہ صوفیائے کرام نے اس کا نہایت ہی لطیف نکتہ جو بیان فرمایا ہے اس کو پڑھ کر آنکھیں خیرہ اور دل شادکام ہو جاتا ہے۔

صوفیائے کرام کے نزدیک حضور پرنور ﷺ کا استغفار روحانی ارتقاء اور اعلیٰ منزلوں کا نتیجہ تھا۔ حضورِ اقدس ﷺ کے روحانی مدارج و منازل کی پرواز مسلسل رفعتوں کی طرف گامزن تھی، تو جب آپ ﷺ اونچی منزل پر پہنچتے تو نیچے کی منزل اس قدر پست اور کم تر نظر آتی کہ آپ اس پر استغفار پڑھتے تھے۔ (سبحان اللہ العظیم)

سیدی اعلیٰ حضرت نے کیا خوب فرمایا ہے:

لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔