عنوان: | اعلیٰ حضرت کا ابتدائی فتاویٰ نویسی کا واقعہ |
---|---|
تحریر: | محمد شاہنواز عطاری جمشیدپوری |
پیش کش: | جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاھوری، موڈاسا، گجرات |
اسلامی تاریخ میں ایسے نابغۂ روزگار علماء کم ہی گزرے ہیں جنہوں نے بچپن ہی میں اپنی علمی عظمت کے ایسے نقوش چھوڑے ہوں کہ بڑے بڑے اہلِ علم کو بھی رشک آ جائے۔ برصغیر کی علمی و فقہی دنیا میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ کی شخصیت ایک درخشندہ چراغ ہے۔ آپ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر پہلو علمی گہرائی، فقہی بصیرت اور دینی خدمت سے لبریز ہے۔ محض چودہ سال کی عمر میں فتویٰ نویسی کا کام سنبھال لینا اور بڑے بڑے اہلِ علم کے درمیان حق کو نمایاں کرنا آپ کی غیر معمولی ذہانت اور اللہ تعالیٰ کی خاص عطا کا مظہر ہے۔ ذیل کا واقعہ اسی حقیقت کا آئینہ دار ہے۔
واقعہ
مولوی اعجاز ولی خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت قبلہ کی عمر چودہ سال تھی، افتا کا کام حضرت نے اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ ایک شخص رام پور سے حضرتِ اقدس امام المحققین مولانا نقی علی خان صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہرت سن کر بریلی حاضر ہوئے اور جناب مولانا ارشاد حسین صاحب مجددی کا فتویٰ، جس پر اکثر علماء کے دستخط موجود تھے، خدمت میں پیش کیا۔ حضرت نے فرمایا: "کمرے میں مولوی صاحب ہیں، ان کو دے دیجیے، جواب لکھ دیں گے۔" وہ شخص اندر گیا اور واپس آ کر عرض کیا کہ "کمرے میں تو مولوی صاحب نہیں ہیں، صرف ایک صاحبزادے ہیں۔" فرمایا: "انہی کو دے دیجیے، وہی لکھ دیں گے۔" اس نے کہا: "حضور! میں تو آپ کی شہرت سن کر آیا تھا۔" فرمایا: "آج کل وہی فتویٰ لکھا کرتے ہیں، انہی کو دے دیجیے۔"
جب اعلیٰ حضرت نے فتوے کو دیکھا تو وہ درست نہ تھا۔ آپ نے اس کے خلاف جواب تحریر فرمایا اور والدِ ماجد کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت نے اس کی تصدیق و تصویب فرمائی۔ پھر وہ صاحب یہ فتویٰ دوسرے علماء کے پاس لے گئے، اور چونکہ مولانا شاہ ارشاد حسین صاحب کی شہرت بہت بلند تھی اس لیے سب نے انہی کے فتویٰ کی تصدیق کر دی۔
یہ فتویٰ جب رام پور کے نواب کلب علی خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے غور سے پڑھا اور دیکھا کہ سب علماء متفق ہیں مگر بریلی کے دو علماء (اعلیٰ حضرت اور آپ کے والدِ ماجد) نے اختلاف کیا ہے۔ نواب صاحب نے مولانا شاہ ارشاد حسین کو بلایا اور فتویٰ ان کے سامنے رکھا۔ حضرت مولانا کی دیانت و انصاف پسندی دیکھیں کہ صاف فرمایا: "فی الحقیقت صحیح حکم وہی ہے جو ان دو صاحبوں نے لکھا ہے۔"
نواب صاحب نے حیرت سے پوچھا: "پھر اتنے علماء نے آپ کے فتویٰ کی تصدیق کس طرح کی؟" فرمایا: "ان لوگوں نے مجھ پر اعتماد، میری شہرت کی وجہ سے کیا اور میرے فتویٰ کی تصدیق کی، ورنہ حق وہی ہے جو انہوں نے (اعلیٰ حضرت اور ان کے والدِ ماجد) لکھا ہے۔" یہ سن کر نواب صاحب کو اعلیٰ حضرت سے ملاقات کی شدید خواہش ہوئی۔
یہ واقعہ امام احمد رضا کی حیاتِ مبارکہ کا ایک روشن باب ہے، جس میں آپ کی کم سنی کے باوجود غیر معمولی فقہی بصیرت جھلکتی ہے۔ صرف چودہ سال کی عمر میں فتویٰ نویسی اور پھر ایک معروف عالم کے فتویٰ پر علمی و دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ آپ کو بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ نے علومِ دینیہ کی گہرائیوں سے نوازا تھا۔
اس قصے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شہرت ہمیشہ حق کا معیار نہیں ہوتی۔ بہت سے علماء نے صرف اعتماد اور شہرت کی بنیاد پر ایک فتویٰ کی تصدیق کر دی، مگر جب تحقیق سامنے آئی تو اصل حق وہی ثابت ہوا جو ایک کم سن عالم اور ان کے والدِ ماجد نے بیان کیا تھا۔ یہ اصول آج بھی ہمارے لیے رہنمائی ہے کہ دین کے مسائل میں دلیل اور تحقیق کو اصل سمجھا جائے، نہ کہ شہرت اور اکثریت کو۔
مزید برآں، حضرت مولانا شاہ ارشاد حسین مجددی کی دیانت و انصاف پسندی ایک درخشاں مثال ہے۔ انہوں نے اپنی ذات یا مقام کی پرواہ کیے بغیر کھلے لفظوں میں یہ اعتراف کیا کہ اصل حق اعلیٰ حضرت اور ان کے والدِ ماجد کے ساتھ ہے۔ یہی سچے علماء کی پہچان ہے کہ وہ حق کو تسلیم کرنے میں کبھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔
نواب کلب علی خان کی طلبِ ملاقات بھی اس حقیقت کی دلیل ہے کہ علم و حق کی کشش دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف اعلیٰ حضرت کے علمی کمال کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی سبق دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو بچپن ہی سے حق کے اظہار اور دین کے تحفظ کے لیے تیار فرما دیتا ہے۔ [حیاتِ اعلیٰ حضرت، مصنف: ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری، ج: ۱، ص: ۱۲۶-۱۲۷]