دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

ذاتِ اقدس ﷺ رضائے الٰہی کا آئینہ

عنوان: ذاتِ اقدس ﷺ رضائے الٰہی کا آئینہ
تحریر: مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا
پیش کش: ادارہ لباب

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ

سیدی اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ القوی رقم طراز ہیں: اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں امام ربانی احمد بن محمد خطیب قسطلانی پر کہ مواہبِ لدنیہ منح محمدیہ میں فرماتے ہیں:

ھُو صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خزانة السر و موضع نفوذ الأمر، فلا ینفذ الأمر إلا منه و لا ینقل خیر إلا عنه صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم۔

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم خزانۂ رازِ الٰہی، وجہِ نفاذِ امر ہیں، کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا مگر حضور کے دربار سے، اور کوئی نعمت کسی کو نہیں ملتی مگر حضور کی سرکار سے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم۔

آگے فرماتے ہیں: مسلمانوں! ذرا دیکھنا، کوئی وہابی اِدھر اُدھر ہو تو اُسے باہر کر دو اور کوئی جھوٹا متصوف نصاریٰ کی طرح افراط و غلو والا دبا چھپا ہو تو اُسے بھی دُور کر دو، اور تم "عبدہٗ و رسولہٗ" کی سچی معیار پر کانٹے کی تول مستقیم ہو کر یہ حدیث سنو کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

ابو طالب بیمار پڑے اور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کو تشریف لے گئے۔ ابو طالب نے عرض کی: اے بھتیجے میرے! اپنے رب سے جس نے حضور کو بھیجا ہے میری تندرستی کی دعا کیجئے۔ حضور سیدِ عالم نے دعا کی: الٰہی! میرے چچا کو شفا دے۔ یہ دعا فرماتے ہی ابو طالب اُٹھ کھڑے ہوئے جیسے کسی نے بندش کھول دی۔ حضور سے عرض کی: اے میرے بھتیجے! بے شک حضور کا رب جس کی تم عبادت کرتے ہو تمہاری اطاعت کرتا ہے۔ سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کلمہ پر انکار نہ فرمایا بلکہ اور تاکیداً و تائیداً) ارشاد فرمایا کہ اے چچا! اگر تو اس کی اطاعت کرے تو وہ تیرے ساتھ بھی یہی معاملہ فرمائے گا۔

اسی باب سے ہے حدیث کہ فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

إن ربي استشارني في أمتي ماذا أفعل بھم۔

بے شک میرے رب نے میری امت کے باب میں مجھ سے مشورہ طلب کیا فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں؟

فقلت ما شئت یا رب ھم خلقك و عبادك۔

میں نے عرض کیا: اے ربِّ میرے! جو تو چاہے کہ وہ تیری مخلوق اور تیرے بندے ہیں۔

فاستشارني الثانیة۔

اس نے دوبارہ مجھ سے مشورہ پوچھا۔

فقلت له كذلك۔

میں نے اب بھی وہی عرض کی۔ اس نے سہ بارہ مجھ سے مشورہ لیا:

فقلت له كذلك۔

میں نے پھر وہی عرض کی۔

فقال تعالی إني لن أخزیك في أمتك یا أحمد۔

تو رب عزوجل نے فرمایا: اے احمد! بے شک میں ہرگز تجھے تیری امت کے معاملہ میں رسوا نہ کروں گا۔

وبشرني أن أول من یدخل الجنة معي من أمتي سبعون ألفا مع كل ألف سبعون ألفا لیس علیھم حساب۔

اور مجھے بشارت دی کہ میرے ستر ہزار امتی میرے ساتھ سب سے پہلے داخلِ بہشت ہوں گے، ان میں ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے جن سے حساب تک نہ لیا جائے گا۔

آگے مزید فرماتے ہیں: بحمداللہ یہی معنی ہیں اس حدیث کے کہ رب العزت روزِ قیامت حضرتِ رسالت مآب علیہ الصلاۃ والتحیۃ سے مجمعِ اولین و آخرین میں فرمائے گا:

كلھم یطلبون رضائي وأنا أطلب رضاك یا محمد۔

یہ سب میری رضا چاہتے ہیں اور میں تیری رضا چاہتا ہوں اے محمد ﷺ! میں نے اپنا ملک عرش سے فرش تک تجھ پر قربان کر دیا۔ صلی اللہ علیک و علی آلک و بارک وسلم۔ (الأمن والعلی لناعتی المصطفی بدافع البلاء، ص: ۱۳۰ تا ۱۳۳، طبع: مجلس آئی ٹی دعوت اسلامی)

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔