عنوان: | مصنوعی ذہانت اور ایمانی زوال |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
دنیا آج ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں مشین انسان بننے کی کوشش کر رہی ہے، اور انسان اپنی انسانیت کھو چکا ہےعقل و سائنس کی دنیا میں ایک تازہ واقعہ نے پوری انسانیت کو حیران کر دیا ہے۔ چین کی مشہور شنگھائی تھیٹر اکیڈمی کے ڈراما اور فلم کے شعبے نے ایک انسان نما روبوٹ کو اپنے پی ایچ ڈی پروگرام میں باضابطہ داخلہ دے دیا ہے۔
یہ روبوٹ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کا ایک شاہ کار ہے، جو قدرتی چینی زبان میں بات چیت کرتا ہے، جذباتی تاثرات ظاہر کرتا ہے، اور تھیٹر کے کرداروں، مکالمات، حرکات و سکنات اور فنِ اداکاری پر تحقیق کر رہا ہے۔
اس روبوٹ کو ایک مکمل طالب علم کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے پاس باقاعدہ طالب علمی کارڈ ہے، وہ کلاس میں شریک ہوتا ہے، مکالمے ادا کرتا ہے، اور ایک تحقیقی مقالہ بھی تحریر کر رہا ہے۔پروفیسر ینگ چنگ چنگ، جو اس منصوبے کے نگران ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ لمحہ انسان اور مشین کے درمیانجمالیاتی تبادلے کا آغاز ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا جمالیات (Aesthetics) صرف محسوسات سے تعلق رکھتی ہیں؟کیا فن ایک بے روح مشین میں جنم لے سکتا ہے؟اور کیا انسان، جو روح و عقل دونوں کا پیکر ہے، اب محض مادّہ کی تقلید میں فنا ہوتا جا رہا ہے؟
یہ ترقی بظاہر سائنس کا کمال ہے، لیکن درحقیقت روحِ انسانی کی شکست کا آغاز ہے۔آج جب مشین فن سیکھ رہی ہے، انسان فنِ بندگی سے غافل ہے۔
روبوٹ جذبات کی نقل کر رہا ہے، اور انسان اپنے حقیقی جذبات۔ایمان، خوفِ خدا، محبتِ رسول ﷺ سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ اسلام میں علم صرف وہ نہیں جو عقل کو تیز کرے، بلکہ وہ ہے جو دل کو منور کرے۔
قرآن کریم نے بارہا کہا:
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
( المجادلہ: 11)ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
اسلام نے علم کو عبادت کا درجہ دیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ
(مسلم: 2699)ترجمہ: جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے کوئی راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔
مگر جب علم ایمان سے خالی ہو جائے تو وہ محض مظاہرہ بن کر رہ جاتا ہے، جس میں روح نہیں۔ صرف شور رہ جاتا ہے۔
آج چین روبوٹ کو فن سکھا رہا ہے،اور امتِ محمد ﷺ کے نوجوان قرآن، نماز، اور دین سے دور ہیں۔وہ روبوٹ کو ڈرامہ سکھا رہے ہیں،
اور ہم اپنے بچوں کو قرآن کی ایک سورت بھی تجوید سے نہیں سکھا رہے۔یہ المیہ ہے کہ دنیا مشین کو انسان بنانے میں مصروف ہے،اور ہم انسان کو خود اپنی حقیقت سے بیگانہ کر رہے ہیں۔یہ خبر صرف ایک ٹیکنالوجی کی پیش رفت نہیں، بلکہ ایک روحانی تنبیہ ہے۔کہ اگر امت نے ایمان کے علم کو چھوڑ کر دنیاوی علم پر اکتفا کیا تومشینیں ہمیں علم میں شکست دیں گی، اور ہم خود اپنی روح سے محروم ہو جائیں گے۔
اسلام نے علم کا مقصد واضح کیا:علم وہ ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کرے، نہ کہ اس سے غافل بنائے۔جیسا کہ امام غزالی نے فرمایا:
علم وہی ہے جو تجھے اپنے خالق کے قریب کرے، ورنہ وہ جہالت سے بدتر ہے۔
(احیاء علوم الدین، جلد 1، صفحہ 42)آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی صلاحیتوں کو ایمان کی بنیاد پر استوار کریں۔
ہم بھی ترقی کریں، مگر وہ ترقی جو انسانیت کو ربّانیت سے جوڑ دے۔ہم بھی علم حاصل کریں، مگر وہ علم جو نفس کو سنوارے، دل کو نرم کرے، اور عمل کو مضبوط بنائے۔دنیا روبوٹ کے ذریعے انسانیت تلاش کر رہی ہے،مگر اسلام ہمیں انسان کے ذریعے اللہ کی پہچان عطا کرتا ہے۔
چین کا روبوٹ چاہے کامیاب ہو یا ناکام،مگر امتِ مسلمہ کے لیے اصل امتحان یہ ہے کہ کیا ہم دوبارہ قرآن و سنت کے علم کو زندہ کر سکتے ہیں؟کیا ہم اپنے بچوں کو یہ سکھا سکتے ہیں کہ
فنونِ لطیفہ سے بڑھ کر فنِ عبادت ہے،اور عقل سے بڑھ کر ایمان کا نور ہے؟دنیا مشین کی نقل میں مگن ہے،اور مؤمن کو چاہیے کہ وہ اپنے ربّ کی اصل پہچان میں گم ہو جائے۔