| عنوان: | میلاد النبی ﷺ کی برکتیں اور فضائل |
|---|---|
| تحریر: | شگفتہ فاطمہ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات انسان کو محض عقیدت نہیں بلکہ عمل کی پختگی سکھاتی ہیں۔ محبت کا تقاضا یہ نہیں کہ ہم صرف زبان سے درود پڑھیں، بلکہ یہ کہ ہم آپ ﷺ کے طریقے کو زندگی کا معیار بنائیں، اور آپ ﷺ کی ناپسندیدہ چیزوں سے مکمل اجتناب کریں۔
آپ ﷺ کو سب سے زیادہ جو چیز ناپسند تھی، وہ غیر مسلموں کی مشابہت تھی۔ لباس، وضع قطع، رہن سہن، اور تہوار ہر معاملے میں آپ ﷺ نے اپنی امت کو ممتاز اور جداگانہ تشخص رکھنے کا حکم فرمایا۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن ابوداؤد: 4031)
جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔
یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے بھی منع فرمایا جن میں سورج پرست قومیں سورج کو سجدہ کرتی تھیں۔ آپ ﷺ نے امت کو حکم دیا کہ وہ روزہ جلد افطار کرے، تاکہ یہودیوں کی تاخیر سے افطار کرنے کی عادت سے امت الگ رہے۔ آپ ﷺ نے محرم کے دسویں روزے کے ساتھ ایک اور دن کا روزہ رکھنے کا ارشاد فرمایا تاکہ یہودیوں سے امتیاز باقی رہے۔
یہ تمام تعلیمات اسلامی شناخت کے تحفظ کے اصول پر مبنی تھیں۔ مگر افسوس! آج ہم نے اسی شناخت کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ہمارے گھروں میں دیوالی کے چراغ جل رہے ہیں، کرسمس کے درخت سج رہے ہیں، ہولی کے رنگ اڑائے جا رہے ہیں، اور مسلمان عورتیں اپنی خوشی کے اظہار کے لیے غیر مسلم تہذیبوں کے انداز اپنانے میں فخر محسوس کر رہی ہیں۔
آج کی مسلم عورت کبھی اپنے ہاتھوں سے دیوالی کی مٹھائیاں بانٹتی ہے، کبھی کرسمس کی کیک کاٹنے میں شریک ہوتی ہیں، اور کبھی اپنے بچوں کو ہولی کے رنگوں میں بھیگنے دیتی ہے۔ مگر افسوس، اسے یاد نہیں کہ سیدہ فاطمہ کے گھر میں خوشی کا اظہار ذکرِ الٰہی سے ہوتا تھا، چراغاں سے نہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے نبی ﷺ اور صحابہ نے کبھی کسی اسلامی موقع پر دیے جلانے، چراغاں کرنے یا رنگ پھینکنے کی دعوت دی؟ نہیں۔ اسلام میں خوشی کا معیار عبادت اور اخلاق ہے، نہ کہ روشنیوں اور رسومات کا شور۔
یہ افسوسں ناک حقیقت ہے کہ آج مسلمان قوم تہذیبی غلامی کا شکار ہے۔ ہم مغرب اور غیر مسلم معاشرت سے تہوار تو لے رہے ہیں، مگر اپنے نبی ﷺ کی سنتوں سے غافل ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو سیرتِ رسول ﷺ کے بیس واقعات تک معلوم نہیں۔ بہت سے اساتذہ اور طلبہ کو حضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور اولادِ پاک کے نام تک یاد نہیں۔
محبتِ رسول ﷺ کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے نقشِ قدم پر چلیں، نہ کہ دوسروں کی رسموں میں رنگ جائیں۔ ہمیں چاہیے کہ۔ گھروں میں سیرت کے حلقے قائم کریں، خواتین اور بچوں کو نبی ﷺ کے اخلاق و کردار سے روشناس کرائیں، کوئز مقابلے منعقد کریں، اور انعام کے ذریعے بچوں میں سیرت سے محبت پیدا کریں۔
سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ ہم غیر مسلم بھائیوں تک نبی ﷺ کی سیرت، اخلاق، اور انسانیت نواز تعلیمات کو پہنچائیں۔ مغربی دنیا نے اسلام کے خلاف نفرت اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی منظم مہم چلا رکھی ہے، اس کا اصل جواب سیرتِ محمدی ﷺ کی اشاعت ہے۔
یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی تہذیبی و دینی غیرت کو زندہ کر سکتے ہیں۔ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی پہچان کھو کر صرف نام کے مسلمان رہ جائیں گے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم غیر مسلم تہواروں کی ظاہری چمک میں کھو کر اپنی دینی پہچان نہ بھولیں۔ عشقِ رسول ﷺ کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنی خوشیاں شریعت کے دائرے میں منائیں اور اپنی نئی نسل کو سیرتِ نبوی ﷺ سے جوڑیں، یہی حقیقی محبت اور ایمان کی علامت ہے۔
