| عنوان: | مصنف کیا ہوتا ہے | 
|---|---|
| تحریر: | عائشہ رضا عطاریہ | 
| پیش کش: | ادارہ لباب | 
مصنف وہ شخصیت ہوتی ہے، جو اپنے خیالات، تجربات، احساسات اور علم کو الفاظ کا جامہ پہنا کر قاری کے سامنے پیش کرتی ہے۔ مصنف صرف لکھنے والا نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک فکر ساز، راہ دکھانے والا اور قلم کا امین ہوتا ہے۔ اس کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کبھی دلوں کو جھنجھوڑتے ہیں، کبھی عقل کو منور کرتے ہیں، اور کبھی معاشرے میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں۔
مصنف کی تحریر میں اس کا ذاتی احساس، معاشرتی شعور اور فکری گہرائی جھلکتی ہے۔ وہ خاموشی سے بیٹھ کر الفاظ کے ذریعے وہ سب کچھ بیان کرتا ہے، جو زبانیں کہنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ اس کے لفظوں میں اثر اس لیے ہوتا ہے کہ وہ سچائی اور خلوص سے جنم لیتے ہیں۔
دینِ اسلام میں قلم اور تحریر کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ۔
ترجمہ: قلم اور ان کے لکھے کی قسم۔
علمائے کرام نے اس آیت کی تین تفسیری جہتیں بیان فرمائی ہیں، جس کا پہلا قول یہ ہے: اس آیت میں قلم سے مراد وہ قلم ہے، جس سے انسان لکھتے ہیں، اور "ان کے لکھے" سے مراد دینی تحریریں ہیں۔ (صراط الجنان، تحت آیت: 1، سورہ: 68)
علم و ہدایت کے مضامین، اور وہ تمام تحریریں ہیں، جو دین کی خدمت میں لکھی جاتی ہیں۔ یعنی قلم کی قسم! اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں۔ یہ آیت مصنف کے مرتبے کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔
مصنف اپنے دل کے احساسات کو اس نزاکت اور سلیقے سے صفحے پر اتارتا ہے، جیسے کوئی ماہر سنّار محبت اور توجہ سے موتیوں کو ایک ایک کر کے پرو کر ایک حسین و دلکش ہار تیار کرتا ہے۔ اسی طرح سے مصنف بھی ایک -ایک لفظ کو موتی کی طرح پرو کر بڑے ہی بہترین اور خوبصورت انداز میں صفحہ پر اتارتا ہے ۔ پھر وہ خوبصورت تحریر احساس و خیال کی چمک سے جگمگا اُٹھتی ہے۔
دراصل، مصنف معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہ اپنے قلم سے لوگوں کے دلوں میں روشنی جگاتا ہے، اور بکھرے ہوئے خیالات کو ایک منظم صورت دیتا ہے۔ اس کی تحریر وقت کے ساتھ نہیں مٹتی، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے علم و ہدایت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
مصنف کا قلم محض سیاہی سے نہیں، بلکہ اپنے گہرے احساسات سے لکھتا ہے۔ وہ اپنی تحریر کے ذریعے زندہ رہتا ہے، چاہے زمانے بدل جائیں، لیکن اس کے الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں — کیونکہ وہ الفاظ سچائی، علم اور خیر کے سفیر ہوتے ہیں۔
اے ربِّ کریم! ہمیں اپنے علماءِ اہلِ سنت کی قدر و منزلت سمجھنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کے قلم سے اُبھرتی ہوئی تحریروں کو ہمارے دلوں میں اتار دے، تاکہ ہر لفظ ہمارے ایمان کو نور بخشتا اور محبتِ دین میں اضافہ کرے۔ آمین۔
 

