دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

موضوع روایت کی پہچان کے اصول اور رد کے طریقے

موضوع روایت کی پہچان کے اصول اور رد کے طریقے
عنوان: موضوع روایت کی پہچان کے اصول اور رد کے طریقے
تحریر: افروز مدنی پلاموی

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار

جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ [صحيح البخاري، ج:١، ص:٥٢، (١١٠)، دار ابن كثير]

یہ حدیث مبارکہ علم روایت حدیث کا بنیادی اصول ہے۔ اس میں محض جھوٹ بولنے کی ممانعت نہیں، بلکہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ایسی بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی، تو اس کا گناہ نہایت شدید اور اس کا انجام جہنم کا ٹھکانہ ہے۔

اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے محدثین کرام نے یہ طے کیا کہ جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جائے، وہ پوری تحقیق، جرح و تعدیل، اور اصول روایت کے معیار پر پوری اترے۔ مگر صد افسوس! کچھ گمراہ کن لوگوں نے یا تو جان بوجھ کر، یا دین کی خدمت کے نام پر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی روایات منسوب کر دیں جو سراسر من گھڑت، خود ساختہ یا خرافات پر مبنی تھیں۔

یہی وجہ بنی کہ محدثین کرام نے صرف صحیح احادیث کو الگ کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا، بلکہ جھوٹی اور من گھڑت باتوں یعنی موضوع روایات کی بھی نشان دہی کی، اور ان کو پہچاننے کے اصول مرتب کیے، تاکہ دین میں ملاوٹ نہ ہو اور ہمیں دین وہی ملے جو اصل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

حدیث موضوع کی تعریف

الحديث الموضوع: هو المختلق المصنوع. أي الذي ينسب إلى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كذبا، وليس له صلة حقيقية بالنبي صلی اللہ علیہ وسلم. وليس هو بحديث، لكنهم سموه حديثا بالنظر إلى زعم راويه.

وہ من گھڑت اور جھوٹی بات ہے۔ یعنی وہ بات جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حقیقی تعلق نہیں، مگر جھوٹ بول کر ان کی طرف نسبت کی گئی ہو۔ حقیقت میں وہ حدیث کہلانے کے لائق نہیں، لیکن چونکہ راوی نے زعم کے ساتھ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا ہوتا ہے، اسی بنا پر اسے حدیث کہا جاتا ہے۔ [منهج النقد، ص:٣٠١، دار الفكر]

موضوع روایت کی پہچان کے اصول

علامہ ابن حجر نے یہ اصول بیان کیے ہیں:

حدیث کے موضوع ہونے کا علم اس بات سے بھی ہو جاتا ہے کہ

  1. واضع خود اقرار کر لے اس روایت کے موضوع ہونے کا۔
  2. راوی کی حالت سے اندازہ ہو جائے؛ جیسے مأمون بن احمد کا واقعہ، کہ اس کے سامنے یہ مسئلہ بیان کیا گیا کہ حسن بصری رحمة الله علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے یا نہیں؟ تو اس نے اسی وقت ایک سند کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ حدیث منسوب کر دی کہ: سمع الحسن من أبي هريرة حسن نے ابو ہریرہ سے سنا ہے۔
    اسی طرح غیاث بن ابراہیم کا واقعہ ہے کہ وہ خلیفہ مہدی کے پاس حاضر ہوا اور دیکھا کہ وہ کبوتروں سے کھیل رہا ہے، تو اس نے اسی وقت ایک حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسناد کے ساتھ بیان کر دی کہ: لا سبق إلا في نصل، أو خف، أو حافر، أو جناح، فزاد في الحديث: أو جناح یعنی سبقت صرف تیر اندازی، اونٹوں کی دوڑ، گھوڑوں کی دوڑ، یا پروں (یعنی پرندوں) میں ہے۔ اس نے حدیث میں أو جناح کا اضافہ کر دیا تاکہ خلیفہ کی خوشی حاصل کرے۔ خلیفہ مہدی نے فوراً سمجھ لیا کہ اس نے میری خوشی کے لیے جھوٹ گھڑا ہے، تو خلیفہ نے حکم دیا کہ کبوتروں کو ذبح کر دیا جائے۔
  3. خود روایت کی حالت سے بھی جھوٹ کا پتہ چل جاتا ہے، مثلاً اگر وہ نص قرآن، یا سنت متواترہ، یا اجماع قطعی، یا عقل صریح کے خلاف ہو — جبکہ کوئی تاویل ممکن ہی نہ ہو۔ [نزهة النظر، ص:١٥٥، تراث]

حدیث موضوع کی پہچان کے لیے اعلیٰ حضرت رحمة الله تعالیٰ علیہ نے 15 قرائن بیان کیے ہیں: (منیر العین کی عبارت)

افادہ دہم: (موضوعیت حدیث کیونکر ثابت ہوتی ہے) غرض ایسے وجود سے حکم وضع کی طرف راہ چاہنا محض ہوس ہے، ہاں موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کا مضمون

  1. قرآن عظیم
  2. سنت متواترہ
  3. یا اجماع قطعی قطعیات الدلالة
  4. یا عقل صریح
  5. یا حسن صحیح
  6. یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہو کہ احتمال تاویل و تطبیق نہ رہے۔
  7. یا معنی شنیع و قبیح ہوں جن کا صدور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہ ہو، جیسے معاذ اللہ کسی فساد یا ظلم یا عبث یا سفہ یا مدح باطل یا ذم حق پر مشتمل ہونا۔
  8. یا ایک جماعت جس کا عدد حد تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایک دوسرے کی تقلید کا نہ رہے اس کے کذب و بطلان پر گواہی مستنداً إلی الحس دے۔
  9. یا خبر کسی ایسے امر کی ہو کہ اگر واقع ہوتا تو اس کی نقل و خبر مشہور و مستفیض ہو جاتی، مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتا نہیں۔
  10. یا کسی حقیر فعل کی مدحت اور اس پر وعدہ و بشارت یا صغیر امر کی مذمت اور اس پر وعید و تہدید میں ایسے لمبے چوڑے مبالغے ہوں جنہیں کلام معجز نظام نبوت سے مشابہت نہ رہے۔
  11. یا یوں حکم وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیک و سخیف ہوں جنہیں سمع دفع اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہو کہ یہ بعینہ الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں یا کہ وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو۔
  12. یا ناقل رافضی حضرات اہل بیت کرام علی سیدہم و علیہم الصلاة و السلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اس کے غیر سے ثابت نہ ہوں، جیسے حدیث: لحمك لحمي ودمك دمي (تیرا گوشت میرا گوشت، تیرا خون میرا خون۔) اقول: انصافاً یوں ہی وہ مناقب امیر معاویہ و عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائل امیر المؤمنین واہل بیت طاہرین رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں۔ كما أشار إليه الحافظ أبو يعلى والحافظ الخليلي في الإرشاد (جیسا کہ اس پر حافظ ابو یعلی اور حافظ خلیلی نے ارشاد میں تصریح کی ہے۔) یوں ہی نواصب نے مناقب امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں حدیثیں گھڑیں كما أشار إليه الإمام الذاب عن السنة أحمد بن حنبل رحمة الله تعالیٰ (جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمة الله تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی جو سنت کا دفاع کرنے والے ہیں۔)
  13. یا قرائن حالیہ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے یا غضب وغیرہما کے باعث ابھی گھڑ کر پیش کر دی ہے جیسے حدیث سبق میں زیادت جناح اور حدیث دم معلمین اطفال۔
  14. یا تمام کتب و تصانیف اسلامیہ میں استقرائے تام کیا جائے اور اس کا کہیں پتا نہ چلے، یہ صرف اجلہ حفاظ ائمہ شان کا کام تھا جس کی لیاقت صد یا سال سے معدوم۔
  15. یا راوی خود اقرار وضع کر دے خواہ صراحتاً خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ اقرار ہو، مثلاً ایک شیخ سے بلاواسطہ بدعویٰ سماع روایت کرے پھر اس کی تاریخ وفات وہ بتائے کہ اس کا اس سے سننا معقول نہ ہو۔ [منير العين، ص:٣٢، دعوت اسلامی]

رد کے طریقے

مطلب یہ ہے کہ محدثین کرام نے کن وجوہات کی بنا پر حدیث کو قبول نہیں کیا بلکہ رد کرتے ہوئے موضوع قرار دیا۔ اس کو مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں:

جیسا کہ ایک حدیث مشہور ہے

الفقر فخري فقر میرا فخر ہے، یہ قرآن کریم کی اس آیت ’’وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَاَغْنٰی‘‘ کے خلاف ہے چنانچہ امام زرکشی نے اس کو رد کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فقیر یا مسکین کہنا ہرگز جائز نہیں، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے بڑھ کر غنی بنایا ہے، خصوصاً اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بعد تو اس کی گنجائش ہی نہیں۔ [فتاوى رضويہ، ج:١٤، ص:٦٢٧، بركات رضا]

ایک اور روایت عبد اللہ بن عبد اللہ بن أبي سے مروی ہے

أنه أصيبت ثنيته يوم أحد فأمره رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أن يتخذ ثنية من ذهب

یعنی احد کے دن عبد اللہ بن عبد اللہ بن أبي کا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ سونے کا دانت بنوا لیں۔

اس کو امام ابن حبان رحمة الله علیہ نے موضوع قرار دیا اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کیسے حکم فرما سکتے ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بالکل واضح ہے کہ

إن الذهب والحرير محرمان على ذكور أمتي وحل لإناثهم

یعنی سونا اور ریشم میری امت کے مردوں پر حرام ہے البتہ عورتوں کے لیے جائز ہے۔ [المجروحين، ج:١، ص:٩٩، دار الوعي]

ایک اور روایت ہے کہ

محمد بن علی نے روایت کیا کہ عبد اللہ بن یوسف الجبیری نے ہمیں معان ابو صالح سے حدیث بیان کی، وہ ابو حیذہ سے، جو محمد بن سیرین سے، جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

كل ما نهى الله عنه كبيرة حتى لعب الصبيان بالقمار (موضوع ہے)۔ [اللآلئ المصنوعة، ج:٢، ص:١٧٦، دار الكتب العلمية]

معان معتبر راویوں سے ان چیزوں کو بیان کرتے ہیں جو منکر ہیں، والله تعالىٰ أعلم.

حدیث موضوع کا مسئلہ اسلام کی اصل تعلیمات کی حفاظت کے لیے نہایت اہم ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ فرمایا:

جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ اس لیے لازم ہے کہ روایت کی صحت کی سخت جانچ پڑتال کی جائے۔ محدثین کرام نے دقیق اصول و ضوابط بنائے تاکہ جھوٹی اور من گھڑت احادیث کو پہچانا جا سکے اور دین کی پاکیزگی قائم رکھی جا سکے۔ قرآن مجید، سنت متواترہ، اجماع اور عقل صحیح کے معیار کی روشنی میں ہر روایت کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ اصل تعلیمات سے انحراف نہ ہو۔ یوں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی حفاظت کرتے ہوئے امت کو گمراہی اور فساد سے بچا سکتے ہیں اور دین اسلام کو اس کی خالص اور صحیح صورت میں اگلی نسلوں تک پہنچا سکتے ہیں۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔