| عنوان: | کیا بارش ٹیکنالوجی سے برسائی جا سکتی ہے؟ (قرآن و حدیث اور فقہی اصول کی روشنی میں تحقیقی جائزہ) |
|---|---|
| تحریر: | مفتیہ نازیہ فاطمہ |
| پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
بارش اللہ تبارک و تعالی کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ زمین کی زراعت، انسان وحیوان کی زندگی اور کائنات کا توازن اسی پر قائم ہے۔ انسان قدیم زمانے سے بارش کے محتاج رہے۔ کبھی بارش زیادہ ہو تو سیلاب آتے ہیں اور اگر کبھی نہ برسے تو قحط۔
اللہ تبارک و تعالی نے کائنات کا نظام اپنی مشیت اور قدرت سے قائم فرمایا ہے۔ بارش اس نظام کی ایک اہم کڑی ہے۔ موجودہ دور میں سائنس نے بارش کے عمل پر تحقیق کی اور اس کے نتیجے میں کلاؤڈ سیڈنگ جیسی ٹیکنالوجی وجود میں آئی۔ جس کے ذریعے مخصوص کیمیکل بادلوں میں چھوڑے جاتے ہیں۔ تاکہ بارش برسنے کے امکانات بڑھ جائیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی حقیقتا بارش برساتی ہے یا یہ بھی اللہ کی قدرت کے ماتحت ایک سبب ہے اس کا جواب آئیے ہم قرآن و حدیث اور فقہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں بارش کا ذکر
اللہ تعالی کا فرمان:
اَللّٰهُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُهٗ فِی السَّمَآءِ كَیْفَ یَشَآءُ وَ یَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِهٖۚ-فَاِذَاۤ اَصَابَ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ (الروم: 48)
ترجمہ کنز الایمان: الله ہے کہ بھیجتا ہے ہوائیں کہ ابھارتی ہیں بادل پھر اُسے پھیلا دیتا ہے آسمان میں جیساچاہے اور اسے پارہ پارہ کرتا ہے تو تو دیکھے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکل رہا ہے پھر جب اُسے پہنچاتاہے اپنے بندوں میں جس کی طرف چاہے جبھی وہ خوشیاں مناتے ہیں
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے۔
وَ هُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَ یَنْشُرُ رَحْمَتَهٗؕ-وَ هُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ (الشوریٰ 28)
ترجمۂ کنز الایمان: اور وہی ہے کہ مینہ اُتارتا ہے اُن کے نا امید ہونے پر اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے اور وہی کام بنانے والا ہے سب خوبیوں سراہا
ان آیات کریمہ سے ثابت ہوا کہ بارش برسانے کا فاعل اللہ تبارک و تعالی ہے۔
حدیث میں بارش اور دعا
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بارش کے حصول کے لیے دعا اور اللہ تبارک و تعالی کی طرف رجوع کرنے کی تعلیم دی۔
آپ ﷺ بارش کے وقت فرمایا کرتے:
اللهم صَيِّبًا نافعًا۔ (بخاری: 1032)
اے اللہ! اسے نفع دینے والی بارش بنا۔
ایک اور روایت میں ہے:
هل تُنصَرون وتُرزقون إلا بضعفائكم بدعائهم۔ (بخاری: 2896)
تمہیں نصرت اور رزق صرف اپنے کمزوروں کی دعا کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ یہ احادیثِ کریمہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بارش براہِ راست اللہ کی مشیت اور بندوں کی دعا سے وابستہ ہے، نہ کہ محض تدبیریں۔
کلاؤڈ سیڈنگ کا تعارف:
کلاؤڈ سیدنگ ایک سائنسی طریقہ ہے جس میں بادلوں کے اندر نمک یا چاندی کے ذرات چھوڑے جاتے ہیں تاکہ بارش کے امکانات بڑھ جائیں۔ یہ طریقہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب بادل پہلے سے موجود ہوں ورنہ یہ بالکل بے اثر ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انسان بارش پیدا نہیں کرتا، بلکہ صرف اللہ کی بنائی ہوئی قدرتی تدابیر کو استعمال کرتا ہے۔
فقہی و اعتقادی پہلو:
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اسباب اختیار کرنا جائز ہے مگر عقیدہ یہ رہے کہ اثر دینے والا اللہ تبارک وتعالی ہے۔
در مختار میں ہے:
الأسباب لا تؤثر بذاتها بل الله تعالى خالق الأسباب والمسببات۔ (الدر المختار: 6/385)
اسباب اپنی ذات سے اثر انداز نہیں ہوتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اسباب و مسببات کا خالق ہے۔
فقہی قاعدہ ہے:
الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل دليل على التحريم۔ (الأشباه والنظائر للسيوطي: قاعدہ 8)
چیزوں میں اصل اباحت ہے جب تک حرمت کی دلیل نہ آجائے۔
لہٰذا اگر کوئی عمل بذاتِ خود نقصان دہ یا ناجائز نہ ہو تو اس کی اجازت ہے۔ کلاؤڈ سیڈنگ بھی اسی اصول کے تحت جائز ہے۔
کلاؤڈ سیٹنگ بذات خود ناجائز نہیں بشرط یہ کہ نقصان ده یا عقیدہ میں فساد پیدا کرنے والی نہ ہو اسباب اختیار کرنا سنت انبیاء ہے لیکن اُن پر بھروسہ کرنا شرک خفی ہے۔ اصل توکل اللہ تبارک وتعالی پر ہونا چاہیے۔
یہ کہنا کہ بارش ٹیکنالوجی کا کمال ہے درست نہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے بارش اللہ کی رحمت ہے، ٹیکنالوجی صرف ذریعہ ہے۔ یعنی بارش کا پیدا کرنا اور نازل کرنا اللہ کی قدرت ہے انسان کی ساری تدابیر اسی قدرت کے ماتحت ہے۔
