| عنوان: | محبت کی حقیقت اور ہمارا کھوکھلا معیار |
|---|---|
| تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
| پیش کش: | ادارہ لباب |
ہمارا غم انگیز المیہ یہی ہے کہ ہم اپنے آقا، محبوبِ کائنات، وجہِ تخلیقِ حیات، روحِ روانِ کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے عاشق ہونے کے دعویدار تو ہیں، مگر عاشق «بننے» کے لیے تیار نہیں۔ ہم دعوؤں کے بلند مینار پر آ کھڑے ہوئے ہیں، مگر ہمارے کردار کی ساز خاموش اور بے سُر ہے۔۔۔۔!
ایک عاشقِ صادق تو وہ پروانہ ہوتا ہے جو اپنے محبوب کے جمال و کمال، طینت و خصال، جود و نوال اور حسنِ لازوال کی شمعِ فروزاں پر خود کو فدا کرنے کے لیے شدت سے بے تاب ہوتا ہے۔ اس کا دل ایک ایسا ساز ہوتا ہے جو محض محبوب کے نام کی دھن پر لرزتا، گونجتا، بجتا اور رقص کرتا ہے۔
وہ ہمیشہ محبوب کے قصیدے پڑھتا ہے، اس کے فضائل و کمالات کے نغمے گاتا ہے، اور اس کی مدح و ثنا کی محفلیں سجاتا ہے۔ وہ تو اپنے محبوب کی ہر ادا کو سرمۂ چشم بناتا ہے اور اس کے ذکر کو اپنی حیات کا واحد حاصل اور قیمتی سرمایہ سمجھتا ہے۔ وہ صرف اور صرف اپنے محبوب کے ہی راگ الاپتا ہے۔ کیوں کہ محبت قولی اظہار نہیں، عمل ہے۔
جیسا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں:
«اَلْحُبُّ لَيْسَ قَوْلًا بَلْ فِعْلٌ، وَهُوَ نُورُ الْقَلْبِ الَّذِيْ يَظْهَرُ فِيْ الْجَوَارِحِ.»
ترجمہ: محبت قول نہیں بلکہ عمل ہے، اور یہ دل کا وہ نور ہے جو اعضاء و جوارح میں ظاہر ہوتا ہے۔
اور دوسری جگہ محبت کی اصل حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے شمس تبریزی فرماتے ہیں:
«إِذَا كَانَ الْحُبُّ كَلَامًا فَقَطْ، فَهُوَ بَاطِلٌ. وَإِنْ كَانَ فِعْلًا صَادِقًا، فَهُوَ الْحَيَاةُ.»
ترجمہ: اگر محبت صرف بات ہے تو وہ باطل ہے، اور اگر وہ سچا عمل ہے تو وہی زندگی ہے۔
کسی نے علامتِ محبت کو کیا ہی أحسن و دل کش اور دل پذیر و دل آویز انداز میں بیان فرمایا ہے:
«عَلَامَةُ الْحُبِّ هِيَ أَنْ تَبْذُلَ الرُّوْحَ، لَا أَنْ تَتَكَلَّمَ عَنِ الْبَذْلِ.»
ترجمہ: محبت کی علامت یہ ہے کہ تم روح قربان کر دو، نہ کہ قربانی کے بارے میں باتیں کرو۔
مگر ذرا ٹھہریں، اپنی گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہماری محبت کا معیار کیا ہے؟ کیا ہماری محبت صرف خالی خولی دعوؤں اور لفظی اظہار کے نذر ہو چکی ہے؟ کیا ہم نے بلند و بانگ دعوؤں کے پیچھے محبت کی حقیقت کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔۔۔؟ محبت محض فلک پیما دعویٰ نہیں، عمل کا دوسرا نام ہے۔ ایسا عمل جس کا ظاہر و باطن محبوب کی اداؤں کا عکاس اور ہر لمحہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں پروانہ ہو۔
محبت لفظی اظہار نہیں بلکہ عملی تصویر کا تقاضا کرتی ہے۔ ایک ایسا نور جس کا اثر پوری شدت کے ساتھ کردار میں نمایاں ہو۔ ایک آتشِ عشق جو خودی کو خاک کر کے محبوب کے رنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ محبوب سے محبت تو یہ ہے کہ اس کی اداؤں کے پیمانے پر اپنے کردار کی تشکیل کر کے محبوب کو ہدیۂ عقیدت و محبت پیش کیا جائے اور یوں اس کی رضا طلب کی جائے۔۔۔۔!
یہی محبت ہے، یہی اس کا معیار ہے، یہی اس کی حقیقت ہے اور اسی میں محبت کے حسن و جمال کا رقص مضمر ہے۔ کیوں کہ:
«الْكَلَامُ سَهْلٌ، وَلَكِنَّ تَحْوِيْلَ الْكَلَامِ إِلَى حَيَاةٍ هُوَ الْجِهَادُ الْأَكْبَرُ فِي سَبِيْلِ الْحُبِّ.»
ترجمہ: باتیں کرنا آسان ہے، لیکن ان باتوں کو زندگی کے عمل میں بدل دینا ہی محبت کی راہ میں سب سے بڑا جہاد ہے۔
نیز کہا جاتا ہے:
«لَا تَنْظُرْ إِلَى دَعْوَى الْمُحِبِّ فِي لِسَانِهِ، بَلِ انْظُرْ إِلَى أَثَرِ الْحُبِّ فِي أَخْلَاقِهِ وَسُلُوكِهِ.»
ترجمہ: عاشق کی زبان سے نکلے ہوئے دعویٰ کو مت دیکھو، بلکہ اس کی اخلاقیات اور کردار میں محبت کا اثر دیکھو۔
لہٰذا۔۔۔۔۔! اب وقت آ گیا ہے کہ ہم زبانی دعوؤں کے جھوٹے غلاف کو تار تار کر دیں۔ ہماری محبت کی صداقت صرف اس ایک نکتہ پر ٹھہرتی ہے کہ ہم نے اپنے دل کے دعویٰ کو کردار کی کسوٹی پر کتنا پرکھا ہے۔
محبت محض ایک خیالی اُڑان نہیں بلکہ عملی پرواز کا نام ہے۔ الفاظ تو بلبلے ہیں جو لمحوں میں ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں، لیکن عمل سنگِ مرمر پر نقش کردہ تحریر ہے جو وقت کی دھول میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتی ہے۔
آئیے! آج ہی عہد کریں کہ اپنے کردار کی خام مٹی کو محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تابناک سنت کی بھٹی میں تپا کر سونا بنائیں گے۔ اپنے ہر عمل کو اس رحمتِ مجسم کی اداؤں کا آئینہ بنائیں گے تاکہ جب دنیا ہمیں دیکھے تو اسے دعویٰ نہیں، کردار میں ڈھلی ہوئی محبت کا جلوہ نظر آئے۔
یہی عشق کی معراج ہے، یہی جہادِ اکبر ہے، اور یہی وہ انمول ہدیۂ عقیدت ہے جو ہمیں خالقِ کائنات کی ابدی رضا کی دہلیز تک لے جائے گا۔۔۔۔۔۔! اُٹھیں! اور اپنی خاموش محبت کو کردار کی گونج عطا کریں۔ اللہ جل و علا ہمارے الفاظ کو ہمارے کردار کا عکاس بنائے۔ آمین یا رب العالمین، بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
