| عنوان: | قطب الاقطاب سلطان المشائخ فخرالاولیاء صاحبِ کشف و کرامت حضرت خواجہ عبدالسلام مجددی نقشبندی بہادرگنجوی رحمۃ اللہ |
|---|---|
| تحریر: | مولانا عطاء المصطفیٰ عطاری مصباحی، خادم الحدیث جامعۃ المدینہ فیضان مفتی اعظم شاہ جہاں پور (یوپی) |
(76ویں عرس خواجہ عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ پر خصوصی تحریر، 3 اکتوبر 2025 بروز جمعہ یوم عرس ہے، تمام عاشقان اولیاء سے درخواست فاتحہ خوانی کا اہتمام کریں اور فیضان سلامی سے مالامال ہوں) {alertInfo}
کیا پوچھتے ہو عظمت سرکار سلامی
حیراں ہے فلک دیکھ کے دربار سلامی
گنجینۂ علوم و معارفِ ہوا وہ دل
جس دل پہ عیاں ہو گئے اسرار سلامی
ہر زمانہ، ہر دور اور ہر صدی میں اللہ ربّ العزت اپنے برگزیدہ اور مقرب بندوں کو بھیجتا ہے، جو سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تصویر بن کر امت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہوتے ہیں جو بظاہر سادہ نظر آتے ہیں، مگر در حقیقت ان کے باطن معرفتِ الٰہی کے نور سے منور ہوتے ہیں۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے والا علم و عرفان کا نور پاتا ہے، اور ان کے وجود کی برکت سے مایوس دلوں کو امید، غمزدہ روحوں کو سکون اور گمگشتگانِ راہ کو منزل میسر آ جاتی ہے۔
انہی اولیاء کاملین میں ایک درخشندہ نام ہے: عارف باللہ، ولیِ کامل، قطبِ وقت، حضرت مولانا خواجہ عبدالسلام عباسی نقشبندی مجددی رحمۃُ اللہ علیہ کا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فیضانِ کرامت اور روحانی نگاہ سے نہ جانے کتنے دلوں کو ایمان کی حلاوت عطا کی، نہ جانے کتنے مایوس اور شکستہ دلوں کو اُمید کی کرن دی، اور بے شمار غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو معرفتِ الٰہی کی دولت سے مالامال فرمایا۔
ولیِ کامل اور قطبِ وقت
عارف باللہ حضرت مولانا خواجہ عبدالسلام رحمۃُ اللہ علیہ نہایت سادہ لباس زیب تن فرماتے تھے۔ ایک بار آپ جامعہ نعیمیہ مرادآباد تشریف لائے تو صاحبِ خزائن العرفان حضور صدرالافاضل رحمۃُ اللہ علیہ نے حسبِ معمول تعظیم و تکریم فرمائی، یہاں تک کہ واپسی پر آپ کو صدر دروازے تک رخصت کرنے خود تشریف لائے۔
شاگردوں نے حیرت سے پوچھا: "یہ بزرگ کون ہیں؟" صدرالافاضل نے فرمایا: "ابھی تم ناسمجھ ہو۔"
کچھ عرصہ بعد دوبارہ آپ تشریف لائے تو پھر وہی تعظیم و تکریم ہوئی۔ اس بار شاگردوں کے استفسار پر صدرالافاضل نے فرمایا:
"یہ قطبِ وقت ہیں، اور اس وقت نگینہ پہنچ چکے ہیں۔" [مفہوماً سہ ماہی عرفان رضا، شمارہ: جنوری، فروری، مارچ 2022]
یوں یہ عیاں ہوا کہ صدرالافاضل کی نگاہ میں حضرت خواجہ عبدالسلام علیہ الرحمہ نہ صرف ولیِ کامل بلکہ قطبِ وقت بھی تھے۔
کرامت
بہادر گنج شریف کے بزرگوں کی زبانی تواتراً یہ بات سنی جاتی رہی۔ میں نے خود اپنے دادا مرحوم حاجی مقصود حسین جعل الله الجنة مثواه کی زبانی یہ واقعہ سنا ہے کہ حضرت خواجہ عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کو کئی مرتبہ گاؤں ہی کی ندی پر اپنی آنتیں پیٹ سے باہر نکال کر دھوتا ہوا دیکھا گیا۔
یوں نہ صرف آپ اپنے باطن کا تزکیہ فرماتے بلکہ اپنے ظاہری اعضاء کی بھی تطہیر فرمایا کرتے تھے۔ آج بھی آپ کا دریائے فیض جاری ہے۔ اگر کوئی خلوصِ دل کے ساتھ صفائیِ قلب کے لیے حاضرِ بارگاہ ہوتا ہے تو اپنے دل کو ایک خاص کیفیت سے منور پاتا ہے۔
مرشدِ کامل
اولیاءِ کرام کی زندگی کا ہر لمحہ بندگانِ خدا کے لیے چراغِ ہدایت ہوتا ہے۔ ان کے قول و فعل میں ایسی برکت ہوتی ہے کہ جو بھی اخلاص کے ساتھ ان کے در پر آتا ہے، اپنی مراد پا لیتا ہے۔ کبھی کبھی سالک کا دل خود اس کو اس سرچشمۂ فیض تک لے جاتا ہے، جہاں اس کی روح کو سیرابی ملنی ہوتی ہے۔
استاذ الحفاظ حضرت حافظ الحاج عبدالصمد ڈھکیاوی رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں بھی یہ جذبہ پیدا ہوا کہ وہ کسی شیخِ کامل کے دستِ حق پرست پر بیعت کریں۔ یہی آرزو لیے ہوئے صدرالافاضل فخرالاماثل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ کے در پر حاضر ہوئے اور اپنی تمنا کا اظہار کیا۔
حضور صدرالافاضل نے نہایت شفقت سے ارشاد فرمایا: "تمہارے قریب بہادر گنج میں حضرت مولانا عبدالسلام تشریف رکھتے ہیں، بہتر ہے کہ وہیں مرید ہو جاؤ۔"
حافظ صاحب نے نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کیا: "حضور! وہ تو شیخ زادے ہیں، میرا جی چاہتا ہے کہ کسی سید صاحب کے دستِ حق پرست پر بیعت کروں۔"
صدرالافاضل نے تبسم فرمایا اور فرمایا:
"پہلے ایک بار ان سے ملاقات تو کرلو۔" [مفہوماً سہ ماہی عرفان رضا، شمارہ: جنوری، فروری، مارچ 2022]
یہ فرمان اتنا پر کشش اور پر اعتماد تھا کہ حافظ صاحب کو حضرت خواجہ عبدالسلام کی خدمتِ با برکت تک کھینچ لایا۔ حضرت خواجہ عبدالسلام نے دیکھتے ہی فرمایا: "میں تو شیخ زادہ ہوں اور آپ کو تو کسی سید صاحب کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے۔"
اتنا سننا تھا کہ حافظ صاحب کے سینہ پر بجلی سی دوڑ گئی، دل کی دنیا بدل گئی، آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ فوراً قدموں میں گر گئے اور حضرت خواجہ عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے۔
وصال باکمال
علم و عمل کا یہ آفتاب 10 ربیع الثانی 1368ھ، بمطابق 9 فروری 1949ء کو غروب ہوگیا۔ اپنے پیچھے روحانیت و معرفت کے ایسے نقوش چھوڑ گیا جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو حضرت کے روحانی فیضان سے مالامال فرمائے۔ آمین۔
