دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

مطالعہ اور مشاہدہ: قلم کو طاقت دینے والے دو پَر

مطالعہ اور مشاہدہ: قلم کو طاقت دینے والے دو پَر
عنوان: مطالعہ اور مشاہدہ: قلم کو طاقت دینے والے دو پَر
تحریر: عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی

جس طرح زندہ رہنے کے لیے آکسیجن ضروری ہے، اسی طرح لکھنے کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔ جس کے پاس مطالعے کا ذخیرہ نہیں، وہ اچھی تحریر نہیں لکھ سکتا۔

مطالعہ تین طرح کا ہوتا ہے:

  • کتب بینی: یعنی کتابیں، مضامین، اور رسائل پڑھنا۔
  • سماعتی مطالعہ: یعنی ویڈیوز، لیکچر یا آڈیو مواد سننا۔
  • مشاہدہ: اپنے اردگرد کی دنیا کو غور سے دیکھنا اور محسوس کرنا۔

ان میں مطالعہ کرنا یا سننا یہ تو اکثر لوگ کر ہی لیتے ہیں، مگر مشاہدہ ہنر کی بات ہے۔ یہ ایسا باریک فن ہے، جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ "مشاہدہ تحریر کی روح ہے"۔ یعنی ارد گرد دنیا اور اس کے ماحول کو محسوس کرنا اور اتنی باریکی سے سمجھ لینا کہ بغیر اس چیز پر لکھے سکون نہ ملے۔ پھر جب اس کے لیے قلم اٹھے تو ایسا کہ جذبات و احساسات اتنے زیادہ ہوں کہ تحریر کی شکل میں ڈھالنے کے لیے الفاظ ڈھونڈنے پڑ جائیں۔ یہی ہے احساس۔ اور یہی ہے مشاہدہ۔

جیسے سخت دھوپ اور جھلسا دینے والی گرمی کے بعد جب بارش کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو مٹی سے اُٹھتی ہوئی بھینی، سہانی خوشبو دل کو چھو جاتی ہے۔ ایک لمحے میں جذبات بدل جاتے ہیں اور دل سے بلا اختیار نکلتا ہے "سبحان اللّٰہ"۔ یہ ایک نازک لمحہ ہے، جو صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جس کے اندر احساس زندہ ہو۔

اسی طرح جب ہم سفر کرتے ہیں تو ہر سفر اپنے اندر ایک نیا سبق، ایک نئی کہانی چھپائے ہوتا ہے۔ کبھی مشقت آتی ہے، کبھی تھکن، کبھی خوشی۔ مگر ہر منظر، ہر لمحہ ایک نیا تجربہ بن جاتا ہے۔ کبھی معمولی سی تاخیر سے ٹرین چھوٹ جاتی ہے، کبھی انجانے چہرے مسکراہٹ دے جاتے ہیں۔ چلتی ہوئی ٹرین کی کھڑکی سے دیکھو تو راستے میں وہ غریب بچے نظر آتے ہیں جو اپنی ننھی ہتھیلیوں میں پلاسٹک کے ٹکڑے، بوتل وغیرہ سمیٹتے ہیں، بے خوف، بے فکر، پٹری کے بیچ جیسے انہیں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں۔

کبھی ذرا رک کر دیکھیے! یہ دنیا صرف عمارتوں، گاڑیوں اور روشنیوں سے نہیں بنی، بلکہ احساسات سے بنی دنیا ہے مگر ان احساسات کو دیکھنے کے لیے دل میں روشنی چاہیے۔ مشاہدہ سے مراد یہی ہے کہ ہم چیزوں کو صرف دیکھیں نہیں، بلکہ ان کے اندر چھپی ہوئی کیفیت کو سمجھ لیں، ان کی روح کو محسوس کر لیں۔

جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں، تو ذرا غور کیجیے کہ کیسے لوگ اپنی روزی روٹی کی تلاش میں دوڑتے پھرتے ہیں۔ کوئی آرام سے گاڑی میں بیٹھ کر دفتر جاتا ہے، تو کوئی دھوپ اور گرد میں لپٹا ہوا بس یا ٹرین پر صرف دس روپے کی مونگ پھلی اور چائے بیچنے کے لیے چڑھتا ہے۔

اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ چائے دینے ہی والا ہوتا ہے کہ ٹرین چل پڑتی ہے۔ وہ مسافر کے ہاتھ میں گرم چائے دیتا ہے، چند روپے لیتا ہے اور خود دو اسٹیشن آگے پہنچ جاتا ہے۔ جب ٹرین رکتی ہے، تو وہ پھر سے اگلی ٹرین پکڑ کر واپس اپنے اسی اسٹیشن پر آتا ہے۔ یہی سلسلہ صبح سے شام، اور کبھی رات گئے تک چلتا رہتا ہے۔

سوچیے، کس لیے؟ صرف اپنے بال بچوں کے ایک وقت کے کھانے کے لیے، صرف رزقِ حلال کے لیے۔

یہ سب مناظر ہم روز دیکھتے ہیں، مگر کتنے لوگ ہیں جو انہیں محسوس کرتے ہیں؟ اگر محسوس کریں تو دنیا میں ہر طرف کہانیاں بکھری ہیں۔ بس ان کہانیوں کو دیکھنے کے لیے احساس کا فن ہونا چاہیے۔ اور جس نے یہ فن سیکھ لیا، وہ نہ صرف بہتر انسان بنتا ہے بلکہ اس کی تحریر میں زندگی کی خوشبو بسنے لگتی ہے، وہ لکھنے میں کبھی رکاوٹ محسوس نہیں کرتا۔ ایسا شخص جب قلم اٹھاتا ہے تو اس کے الفاظ خود بہنے لگتے ہیں۔ وہ ایک ہی عنوان کے تحت کتنی ہی کیفیات، مناظر اور جذبات کو سمیٹ لیتا ہے جیسے ایک دریا اپنے اندر ہزاروں چشموں کا پانی لیے بہتا ہے۔ "محسوس کرنا دراصل زندہ ہونے کی علامت ہے"۔ اور جو اپنی روح سے محسوس کرتا ہے، وہی اپنی تحریر سے دوسروں کی روح کو چھو لیتا ہے۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔