عنوان: | رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے محرومی کا انجام |
---|---|
تحریر: | عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی |
الحمد للہ رب العالمین۔ درود و سلام نازل ہو اس بابرکت ذات اقدس پر، جن کے در سے جو جُڑا تو ہر سمت عزت و رفعت پا گیا، اور جس کو وہاں سے جدائی ملی وہ دنیا و آخرت میں ذلت کا شکار ہوا۔
یقیناً جس کو ان کے در سے ٹھکرا دیا جائے وہ کہیں پناہ نہیں پاتا، اور جسے اس درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبولیت مل جائے وہ ہر جگہ سرخرو و کامیاب رہتا ہے۔
مفسرینِ کرام، محدّثینِ عظام، مفکّرینِ اسلام اور اکابر علماء نے ہر دور میں بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت کو بیان کیا ہے۔ اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہی وہ ذات ہے جو عزت و سعادت کا سرچشمہ اور نجات کا وسیلہ ہے۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی اپنی تصنیف کردہ کتاب سلطنت مصطفی در مملکتِ کبریا میں تحریر فرماتے ہیں:
انہیں کے رب کی قسم! اس دربار کا نکالا ہوا کہیں بھی پناہ نہیں پاتا۔
دنیا کے بادشاہوں کے مجرم مر کر حاکم کے عتاب سے چھوٹ جاتے ہیں، مگر ان کا مجرم نہ زندگی میں عزت پائے، نہ قبر میں چین، نہ حشر میں آرام۔ اور اس بارگاہ کا مقبول ہر جگہ عزت پاتا ہے۔
اعلیٰ حضرت نے خوب لکھا ہے:
جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے
جس کو چمکار لے ہر پھر کے وہ تیرا تیرا
دل پر کندہ ہو ترا نام کہ وہ دُزدِ رَجیم
الٹے ہی پاؤں پھرے دیکھ کے طغرا تیرا
بخاری، جلد اوّل، کتاب المناقب میں ہے کہ ایک شخص کاتب وحی تھا کہ وحی لکھنے کی خدمت اس کے سپرد تھی۔ کچھ ایسی پھٹکار پڑی کہ وہ مرتد ہو گیا اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو عیب لگانے لگا۔ جب وہ مر گیا اور اس کو دفن کیا گیا تو زمین نے اسے اپنے اندر سے باہر نکال پھینکا۔ اس کے دوست سمجھے کہ شاید اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نکال دیا ہے، چنانچہ زیادہ گہرا گڑھا کھود کر دفن کیا مگر زمین نے پھر بھی قبول نہ کیا، نکال کر پھینک دیا۔ غرض کئی بار دفن کیا مگر نعش باہر آگئی۔
تو معلوم ہوا کہ یہ بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکالا ہوا ہے، اس کو کوئی بھی قبول نہ کرے گا۔
اسی طرح مدارج النبوۃ میں ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ و حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہما ابو لہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے نکاح میں تھیں، کیونکہ اس وقت تک مشرکین سے نکاح حرام نہ ہوا تھا۔ جب سورہ تبت نازل ہوئی تو ابو لہب نے اپنے ان دونوں بیٹوں سے کہا کہ "محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کو طلاق دے دو ورنہ میں تمہیں اپنی میراث سے محروم کر دوں گا۔"
چنانچہ عتیبہ نے تو بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر معذرت کے ساتھ طلاق دی، لیکن عتبہ نے گستاخی کے ساتھ طلاق دی۔ اس پر اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! اپنے کسی کتے کو مقرر فرما جو اس کو سزا دے۔"
یہ سن کر عتبہ کانپ گیا اور ابو لہب کے پاس آ کر کہا۔ ابو لہب بولا: اب میرے بیٹے عتبہ کی خیر نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا اس کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ چنانچہ ہر طرح اس کی نگرانی رکھنے لگا۔ مگر جب ایک بار وہ تجارتی قافلے کا سردار ہو کر شام کو چلا۔ ابو لہب نے اپنے غلاموں کو وصیت کی کہ وہ عتبہ کو اپنے بیچ میں سلایا کریں، ایک جگہ رات کو قافلے والے سو رہے تھے کہ جھاڑی سے ایک شیر نکلا۔ ہر ایک کا منہ سونگھتا پھرا، سب کو سونگھ سونگھ کر چھوڑ دیا لیکن جب عتبہ کے پاس آیا تو اس کا منہ سونگھ کر اس کو پھاڑ ڈالا۔
معلوم ہوا کہ اس بارگاہ میں بے ادبی کرنے والوں کے منہ سے ایسی بدبو نکلتی ہے جس کو جانور بھی پہچان لیتے ہیں کہ یہ گستاخ کا منہ ہے۔ [سلطنتِ مصطفی در مملکتِ کبریا: 30-32]
ایسے واقعات ہمیں سکھاتے ہیں کہ حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کی عظمت کیا ہے اور اس بارگاہ کے ادب و محبت میں کتنے بھید پوشیدہ ہیں۔ دنیا کے تمام بادشاہوں کے فیصلے وقتی اور فانی ہیں، لیکن تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے صادر ہونے والا فیصلہ ابدی اور لازوال ہے۔
جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ نصیب ہو وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہے، اور جس پر بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے پھٹکار برس جائے وہ کہیں عزت و راحت نہیں پاتا۔
جو تیرے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
پس خوش قسمت ہیں وہ غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی جان و دل اپنی آنکھوں اور زبان، حتی کہ اپنے خیالات و جذبات کو بھی درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کے تابع رکھتے ہیں
یہی غلامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں بھی عزت پاتے ہیں اور قبر و حشر میں بھی ان شاء اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے فیض سے کامیاب و سرفراز رہیں گے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہمارا علم و عمل، ہمارا قول و قلم سب کچھ آدابِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھل جائے۔ ہمیں ایسی استقامت دے کہ ہم کسی بد عقیدہ زمانے والوں کی پرواہ نہ کریں بلکہ ہمیشہ ان کے آگے ڈٹے رہیں، کیونکہ۔
ہمیں تو سرخرو ہونا ہے آقا کی نگاہوں میں
زمانے کا ہے کیا ناصر، بھلا جانے، بُرا جانے