عنوان: | حقیقی کامیابی—دنیا و آخرت کا توازن |
---|---|
تحریر: | محمد توصیف رضا عطاری |
پیش کش: | بزم ضیاے سخن، اتر دیناج پور، بنگال |
انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی آرزوؤں اور خواہشات کے پیچھے دوڑتا ہے۔ کوئی امارت کا خواب دیکھتا ہے، کوئی بڑا پروفیسر یا جج بننے کی تمنا رکھتا ہے، کوئی عالی شان کوٹھیاں اور قیمتی گاڑیاں چاہتا ہے، تو کوئی دنیا کی اعلیٰ ڈگریوں کا متمنی ہوتا ہے۔ الغرض ہر دل میں کوئی نہ کوئی خواہش ضرور پلتی ہے۔ لیکن ایک خواہش ایسی ہے جو سب کے دل میں مشترک ہے، اور وہ ہے کامیابی کی تمنا۔
سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی حقیقت ہے جس کے حاصل ہونے کو کامیابی کہا جائے؟ دنیا کے نزدیک کامیابی دولت، شہرت، عہدہ اور ڈگریوں میں ہے، مگر ایک مسلمان کے لیے کامیابی کا تصور بالکل جداگانہ اور اعلیٰ ہے۔ اس کے نزدیک کامیابی کا معیار صرف دنیاوی جاہ و منصب نہیں، بل کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا ہے۔
کامیاب کون ہے؟
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں بارہا حقیقی کامیابی کا معیار بیان فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى [الاعلیٰ: 14]
بے شک جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہوا۔
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ صوفیا کے نزدیک تزکیہ کا مطلب ہے: دل کو برے عقیدے، برے خیالات اور غیر اللہ کے تصورات سے پاک کرنا [نور العرفان]
اسی طرح ایمان والوں کو کامیاب قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ [المؤمنون: 1]
بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔
صراط الجنان کے مطابق یہ آیت دراصل بشارت ہے کہ ایمان والے اللہ کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور جنت میں ہمیشہ کے لیے داخل ہو کر نجات پا گئے [ملخصاً]
مزید فرمایا:
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ [آل عمران: 185]
جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا، وہی کامیاب ہوا۔
قرآن کریم کی اس آیت آل عمران: 185 سے معلوم ہوا کہ اصل اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ بندہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ دنیا کی کامیابی اگرچہ کامیابی ہے، مگر اگر وہ آخرت کے نقصان کا سبب بنے تو درحقیقت خسارہ ہے۔ جو لوگ دنیاوی کامیابی کے لیے سب کچھ کرتے ہیں لیکن آخرت کی کامیابی کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے، وہ یقینی طور پر نقصان میں ہیں۔ لہٰذا مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے اعمال کی فکر کرے جو آخرت کی حقیقی کامیابی کا ذریعہ ہوں اور ان امور سے بچے جو اس کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں [بحوالہ صراط الجنان ملخصاً تحت ھذہ الآیۃ]
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کامیابی کا معیار واضح کرتے ہوئے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ [صحیح مسلم، حدیث 1054]
ترجمہ: وہ شخص کامیاب ہوگیا جو اسلام لے آیا، اللہ نے اسے بقدرِ ضرورت رزق دیا اور جو کچھ ملا اس پر قناعت عطا فرمائی۔
دنیاوی اور اخروی کامیابی کا توازن
لیکن یہ بات بھی ذہن نشیں رکھیں کہ اسلام دنیا سے بے نیازی نہیں سکھاتا، بل کہ دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتا ہے۔ اسی لیے دولت کمائیں مگر حلال طریقے سے، علم حاصل کریں مگر انسانیت کے فائدے کے لیے، شہرت حاصل کریں مگر اس سے دین کی خدمت کریں۔
بڑے منصب حاصل کریں مگر دین و دنیا کے کاموں کے لیے۔
تندرست رہیں مگر عبادت و دیگر ضروریات کے لیے۔
الغرض دنیا کی ہر وہ کامیابی جو دین سے دور نہ کرتی ہو اسے حاصل کی جائے اور جو کامیابی اللہ و رسول اور اس کے دین سے دور کرتی ہو وہ دین و دنیا دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
کامیابی دلانے والے چند اعمال
- ایمان اور اسلام پر قائم رہنا۔
- نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا۔
- سچائی اور دیانت داری اپنانا۔
- حلال رزق پر قناعت کرنا۔
- دوسروں کو فائدہ پہنچانا۔
- لغویات اور برائیوں سے بچنا۔
- وعدوں اور امانت کی حفاظت۔
- نگاہ اور عفت کی حفاظت۔
- موت ایمان پر پانے کی فکر۔
- والدین کی خدمت و فرماں برداری۔
- اخلاقِ حسنہ اپنانا۔
- مسلمانوں کے حقوق ادا کرنا۔
- خواہشاتِ نفس پر قابو پانا۔
- ذکرِ الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا۔
- آخرت کی تیاری کرنا۔
حقیقی کامیابی وہ ہے جو انسان کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کرے اور آخرت میں جنت کی ضمانت بنے۔ دنیا کی کامیابیاں عارضی ہیں، لیکن جو انسان ایمان، عملِ صالح، تقویٰ اور نیک اخلاق کے ساتھ زندگی گزارتا ہے، وہی اصل کامیاب ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب فرمائے، ہمیں ایمان کے ساتھ زندہ رکھے اور ایمان ہی پر موت عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔