دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبادت و ریاضت

غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبادت و ریاضت
غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبادت و ریاضت
عنوان: غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبادت و ریاضت
تحریر: محمد توصیف رضا عطاری، متعلم جامعۃ المدینہ، آگرہ
پیش کش: بزم ضیاے سخن، اتر دیناج پور، بنگال

اولیائے کرام علیہم الرضوان کی عظمت و شان نہایت بلند و بالا ہے۔ اللہ عزوجل کے نزدیک ان کا مقام و مرتبہ کس قدر اعلیٰ ہے، اس کا اندازہ اس حدیث قدسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود اللہ جل شانہٗ نے ان کے دشمنوں سے جنگ کا اعلان فرمایا ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ قَالَ: مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ" [صحیح البخاری، الحدیث 6502]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس سے میرا اعلانِ جنگ ہے۔"

اللہ اکبر! یہ مقام صرف اولیائے کرام کو حاصل ہے کہ وہ تنہا نہیں ہوتے بل کہ ان کی سب سے بڑی طاقت رب العالمین کی تائید و نصرت ہوتی ہے۔

انہی اولیائے کرام میں ہمارے مرشدِ اعظم، سید الاولیا، غوث الاعظم، غوث الثقلین، قطبِ ربانی، قندیلِ نورانی، شہبازِ لامکانی، شیخ المشائخ، حضرت شیخ عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جن کا مقام و مرتبہ نہایت عظیم ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور برگزیدہ ترین بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی شان میں فرمایا:

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اُونچے اُونچوں کے سَروں سے قدَم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا

عبادت و ریاضت کا پہلو

غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف صاحبِ کرامت بزرگ تھے بل کہ عبادت گزار اور زاہدِ شب زندہ دار بھی تھے۔ درحقیقت آپ کی پوری زندگی عبادت و ریاضت اور شریعت پر استقامت میں گزری۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم اولیا کی کرامات تو بڑے شوق سے سنتے اور بیان کرتے ہیں، مگر ان کی عبادات، ریاضتوں اور طرزِ زندگی پر کم گفتگو کرتے ہیں۔ حالاں کہ کرامات کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کی سیرتِ عملی اور عبادت و اطاعت کے انداز کو بھی اپنانا چاہیے، تاکہ سچی غلامی کا حق ادا ہو سکے۔

شریعت پر عمل کا جذبہ

مشہور واقعہ ہے کہ غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ شیرخوارگی کے زمانے ہی میں رمضان المبارک میں صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک دودھ نہیں پیتے تھے [بھجۃ الاسرار، ص: 19]

یہ واقعہ اس حقیقت پر دلیل ہے کہ آپ کی فطرت ہی سے شریعت کے احکام کی تعظیم میں ڈھلی ہوئی تھی۔

اس کے برعکس کچھ نادان لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شریعت اور طریقت الگ الگ چیزیں ہیں، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ طریقت، شریعت ہی کا باطنی پہلو ہے [بہار شریعت، حصہ اول، ص: 265]

لہٰذا جو زبان پر یہ نعرہ لگائے کہ "غوث کا دامن نہیں چھوڑیں گے" اس پر لازم ہے کہ نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن اور دیگر احکامِ شریعت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے، ورنہ محض دعویٰ کافی نہیں۔

حصولِ علمِ دین کی جستجو

بچپن ہی سے آپ علم دین کے حصول میں منہمک تھے۔ آپ کا علمی مقام اس قدر بلند ہوا کہ خود اپنے قصیدۂ غوثیہ میں فرمایا:

"درست العلم حتى صرت قطبا"

یعنی: "میں علم کا درس دیتا رہا یہاں تک کہ منصبِ قطبیت سے سرفراز ہوا۔"

آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ ہم دینی علم کی طرف کم اور دنیاوی علوم کی طرف زیادہ متوجہ ہیں، حالاں کہ بقدر ضرورت علمِ دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ" [ابن ماجہ، الحدیث 224]

اسی لیے دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ ہمیں قرآن و حدیث اور دینی علوم کو بھی سیکھنا چاہیے اور اپنی نسلوں کو سکھانے کی فکر کرنی چاہیے۔

نوافل کی کثرت

آپ فرض نمازوں کے ساتھ نفل نمازوں کی بھی کثرت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن میں ایک ہزار رکعت سے زائد نفل نماز پڑھا کرتے تھے [غوث پاک کے حالات، ص: 32]

یہ حقیقت ہے کہ نوافل کے ذریعے بندہ اللہ کے قریب ہوتا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے:

وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ [صحیح البخاری، حدیث 6502]

"اور میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے، ان میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو میں نے اس پر فرض کیا ہے۔ اور میرا بندہ نفل عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔"

قرآن سے تعلق

آپ کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو تلاوتِ قرآن کی کثرت تھا۔ روایت ہے کہ آپ پندرہ سال تک ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر رات بھر قرآنِ مجید ختم فرماتے رہے، اور چالیس برس تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ جب آپ بے وضو ہوجاتے تو فوراً وضو فرما لیتے، اس کے بعد دو رکعت تحیۃ الوضو ادا فرماتے تھے [بھجۃ الاسرار، ص: 164، ملخصاً]

اس کے مقابلے میں آج ہمارا حال یہ ہے کہ مہینوں بلکہ سالوں قرآن کو کھولتے بھی نہیں۔ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"من قرأ حرفًا من كتاب الله فله به حسنة، والحسنة بعشر أمثالها" [ترمذی، الحدیث 2902]

جو قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے تو اس کے لیے ایک نیکی ہے اور وہ ایک نیکی دس نیکی کے برابر ہے۔

خوفِ خدا

قربِ الٰہی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود آپ کا حال یہ تھا کہ خود کو گناہ گاروں میں شمار فرماتے۔ حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے گلستان میں نقل کیا ہے کہ آپ حرمِ کعبہ میں کنکریوں پر سر رکھ کر دعا فرما رہے تھے:

"اے خداوند کریم! مجھے بخش دے اور اگر سزا کا مستحق ہوں تو قیامت کے دن مجھے اندھا اٹھانا تاکہ نیک لوگوں کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔" [گلستان سعدی، ص: 54]

اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ، وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدُخَانُ جَهَنَّمَ" [ترمذی، حدیث 1633]

"وہ شخص دوزخ میں داخل نہ ہوگا جس نے اللہ کے خوف میں آنسو بہائے یہاں تک کہ دودھ دوبارہ تھن میں واپس چلا جائے (یعنی بالکل ناممکن ہے)، اور اللہ کی راہ میں اُٹھنے والی خاک اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔"

یہی حال ہمارے لیے سبق ہے کہ ہم گناہوں میں ڈوبے ہونے کے باوجود غرور میں مبتلا نہ ہوں بل کہ خوفِ الٰہی دل میں بیدار کریں۔

صدق و سچائی

آپ کے بچپن کا مشہور واقعہ ہے کہ جب بغداد کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں ڈاکوؤں نے قافلہ لوٹ لیا۔ آپ نے ڈاکوؤں کو سچائی کے ساتھ بتایا کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ ڈاکو سردار نے جب یہ حقیقت جانی تو حیرت زدہ ہوا۔ آپ نے فرمایا:

"میری ماں نے نصیحت کی تھی کہ کبھی جھوٹ نہ بولنا۔" [سیرت غوث اعظم، ص: 22، ملخصاً]

یہ سچائی ڈاکوؤں کے دلوں پر اثر کر گئی اور وہ توبہ کر کے نیکی کی راہ پر آ گئے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم بھی جھوٹ سے بچیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا، وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الْرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا" [بخاری شریف، حدیث 6094]

"بے شک سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ کی طرف لے جاتا ہے۔ اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذاب (بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔"

حضور سید الاولیا رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی عبادت، ریاضت، شریعت پر استقامت، قرآن و سنت سے محبت اور خوفِ خدا میں گزری۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی سیرت کو پڑھیں، اس پر غور کریں اور اپنی زندگیوں میں اپنانے کی کوشش کریں۔

اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں غوثِ اعظم کے سچے غلاموں میں شامل فرمائے، آپ کی سیرتِ طیبہ سے سبق لینے کی توفیق عطا فرمائے اور دونوں جہان میں کامیابی نصیب فرمائے۔

آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔