دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

لوگ اپنے حال پر خوش نہیں ہیں!

لوگ اپنے حال پر خوش نہیں ہیں
عنوان: لوگ اپنے حال پر خوش نہیں ہیں
تحریر: ابنِ فاروق محمد عارف عطاری
پیش کش: جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاھوری، موڈاسا، گجرات

ہمارے معاشرے کا حال یہ ہو گیا ہے کہ لوگوں کی زبانوں پر ناشکری کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ ناشکری کرتی ہیں۔ لوگ اپنے حال پر خوش نہیں۔

سنو! ہمارا ربِ کریم کیا فرماتا ہے اپنے پیارے مقدس کلام میں:

لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ [الإبراهيم: 7]

ترجمہ: اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں اور دوں گا، اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔

غور کریں! اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے: اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور دوں گا۔ دیکھو! رب فرما رہا ہے، رب۔

ایک بزرگ کا واقعہ

ایک بزرگ تھے جو مستجاب الدعوات تھے۔ ایک شخص آیا اور ان سے کہا: ”حضور! دعا کیجیے کہ گھر میں ہم پانچ لوگ ہیں اور آمدنی ۵۰۰۰ روپے ہے، آمدنی میں اضافہ ہو جائے۔“ ان بزرگ نے دعا کر دی۔

ایک اور شخص آیا اور ان سے عرض کی: ”حضور! دعا فرمائیں، گھر میں ہم چار لوگ ہیں اور آمدنی ۱۰۰۰۰ روپے ہے، آمدنی میں اضافہ ہو جائے۔“ ان بزرگ نے ان کے لیے بھی دعا کر دی۔

ایک اور شخص آیا اور ان سے کہا: ”حضور! دعا فرمائیں، گھر میں ہم چار لوگ ہیں اور آمدنی ۵۰۰۰۰ روپے ہے، آمدنی میں اضافہ ہو جائے۔“
ان بزرگ نے ان کے لیے بھی دعا فرمائی۔

جب یہ لوگ چلے گئے تو ان بزرگ نے فرمایا: ”شاید لوگ اپنے حال پر خوش نہیں ہیں۔ ۵۰۰۰ والا بھی خوش نہیں ہے، نہ ہی ۱۰۰۰۰ والا، نہ ہی ۵۰۰۰۰ والا۔“

اپنے حال پر خوش رہنا سیکھیے۔ اللہ تعالیٰ نے جس حال میں رکھا، اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیے۔ آئیے! میں آپ کو ایک اور واقعہ سناتا ہوں۔

ہم ان کی طرح کیوں نہیں ہیں

دو دوست تھے جن کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔ یہ دونوں ایک کمپنی میں کام کرتے تھے۔

ایک دن کمپنی کے پروگرام میں ان کو دعوت تھی۔ دونوں دعوت میں ساتھ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ سب لوگ عمدہ عمدہ چیزیں کھا رہے ہیں اور مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ان دونوں میں سے ایک دوست نے دوسرے دوست سے کہا: ”یہ کتنی مزے کی زندگی گزار رہے ہیں، ہم ان کی طرح کیوں نہیں ہیں؟“

تو دوسرا دوست سمجھدار تھا، اس نے کہا: ”ابھی رکو، میں بعد میں بتاتا ہوں۔“

پروگرام ختم ہونے کے بعد جو سمجھدار دوست تھا، وہ اس دوست کو اسی پروگرام کے پاس میں ایک کالونی میں لے گیا۔ وہاں جا کر دیکھا کہ کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہے، کسی کا پیر ٹوٹا ہوا ہے، کسی کا سر زخمی ہے۔

جب یہ منظر ان دونوں نے دیکھا تو سمجھدار دوست نے اس دوست سے کہا: ”تو وہاں مزے کی زندگی گزارنے والے لوگوں کو دیکھ کر کہہ رہا تھا کہ ہم ان جیسے کیوں نہیں ہیں؟ لیکن جب یہاں دیکھا کہ کسی کا ہاتھ، کسی کا پیر، کسی کا سر ٹوٹا ہوا ہے، تو پھر یہاں کیوں نہیں کہہ رہا کہ ہم ان کے جیسے کیوں نہیں ہیں؟“

شکر کی فضیلت اور ناشکری کی مذمت

  1. حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

    لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ [الإبراهيم: 7]

    یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

    وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ [الشوری: 25]

    یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے۔“ [صراط الجنان، الإبراهيم: ۷، بحوالہ در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ج: ۵، ص: ۹]
  2. حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے۔“ [صراط الجنان، الإبراهيم: ۷، بحوالہ شعب الایمان، الثانی والستون من شعب الایمان … الخ، فصل فی المکافأۃ بالصنائع، ج: ۶، ص: ۵۱۶، الحدیث: ۹۱۱۹]
  3. حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ ناشکری کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ [صراط الجنان، الإبراهيم: ۷، بحوالہ رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للہ عزوجل، ج: ۱، ص: ۴۸۴، الحدیث: ۶۰]
  4. سنن ابو داود میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ہر نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی وصیت فرمائی:

    ”اللّٰہُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ“ [سنن ابو داود، کتاب الوتر، باب فی الاستغفار، ج: ۲، ص: ۱۲۳، الحدیث: ۱۵۲۲]

    یعنی اے اللہ عزوجل، تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ [صراط الجنان، الإبراهيم: ۷]

سو بات کی ایک بات:

ناشکری کو اپنی زندگی سے نکال دیں اور اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ادا کریں۔ یاد رکھیں! شکر کا تعلق نعمت سے ہے اور نعمت کا تعلق شکر سے۔ جتنا زیادہ شکر کریں گے، اتنی زیادہ نعمتیں پائیں گے۔ اس سے بڑھ کر ہمیں کیا نعمت چاہیے کہ اللہ پاک نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا ہے۔ الحمد للہ رب العالمین۔

اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں کثرت کے ساتھ اپنا ذکر اور شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے، آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔

۹ اکتوبر ۲۰۲۵

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔