| عنوان: | میں صرف قرآن، بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کو مانتا ہوں باقی کسی عالم کی بات یا کسی اور کو نہیں مانتا! |
|---|---|
| تحریر: | عمر سفیر رضوی، پونچھ، جموں و کشمیر |
بظاہر مضبوط اور مدلل لگنے والا مگر حقیقت میں دین کے فہم کو محدود کرنے والا ایک مغالطہ یہ ہے کہ: ”ہم صرف قرآن، بخاری اور مسلم یا صحاح ستہ کو مانتے ہیں باقی کسی عالم کی بات کو نہیں مانتے یا کسی اور کتاب کو نہیں مانتے۔“
پہلی نظر میں یہ بات بہت مضبوط لگتی ہے لیکن جب ہم دین کو مکمل انداز میں دیکھتے ہیں تو یہ ایک فکری مغالطہ اور گمراہی کا راستہ نظر آتا ہے۔ میں دلائل کے ساتھ اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں (جو لوگ کہتے ہیں کہ میں صرف قرآن، صحیح بخاری و مسلم میں مانتا ہوں یا صرف صحاح ستہ کو مانتا ہوں) تو اس کے پیچھے کیا غلط فہمیاں ہیں، اس کا علمی، عقلی اور شرعی جواب کیا ہے؟
آئیں! اس کے جواب کے طور پر سب سے پہلے مقدس قرآن کی جانب چلتے ہیں۔ قرآن مجید میں سورہ حشر آیت نمبر سات میں اللہ رب العزت فرماتا ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
ترجمہ: جو کچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔ [الحشر: 7]
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس کی سورہ نساء کی آیت نمبر 80 میں فرمایا:
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ
ترجمہ: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ [النساء: 80]
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول و فعل شریعت کا حصہ ہے، یہ سب سنت نبویہ کہلاتے ہیں اور اس کا علم صرف ”صحیح بخاری“ ”صحیح مسلم“ یا صحاح ستہ سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ دیگر کتب احادیث اور اہل علم کے ذریعے مکمل ہوتا ہے۔ لیکن ایک جاہل مطلق، احقر الناس، ارذل الناس، یتیم العلم، خبیث النفس شخص جس نے امت مسلمہ میں انتشار ڈالا بلکہ یوں کہیں گے کہ امت کو جہنم کے راستے پر چلایا ہے، کیوں کہ یہ شخص اکثر و بیشتر اولیائے کرام و اسلاف امت، صحابہ کرام بالخصوص حضرت امیر معاویہ اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کھلے عام نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے جو کہ سراسر گستاخی ہے۔ اور آج کے دور کا سب سے بڑا فتنہ کوئی ہے تو وہ انجینئر مرزا پلمبر ہے، پلمبر اپنے سننے والے کو گمراہ کرتا ہے اور انہیں اولیا اللہ کا گستاخ بنا رہا ہے۔
یہ ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر صرف بڑی بڑی باتیں کرتا ہے اور اپنے اندھے ماننے والوں کو گمراہ کرتا ہے۔ بیچارے اس کے ماننے والے کبھی حدیث نہیں پڑھتے نہ ہی اصول حدیث کو جانتے ہیں اور اس کی حالت یہ ہے کہ عربی بھی درست طریقے سے پڑھنا نہیں جانتا، قرآن بھی درست طریقے سے نہیں آتا۔ ان کے سامنے مرزا صرف بڑی بڑی باتیں کرتا ہے اور ان بیچاروں کو لگتا ہے کہ بہت بڑا علامہ ہے۔
خیر میری گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ جو اس نے ایک امت میں مغالطہ بیان کیا اور غلط بات پھیلائی اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی اس پر کچھ اہم گفتگو کرنی ہے تاکہ اس کے ماننے والوں کو پتا چلے کہ ہم حق پر ہیں یا باطل راستے پر ہیں۔ اللہ سب کو ہدایت کے راستے پر گامزن فرمائے، آمین۔
جو اس نے ایک یہ مغالطہ بیان کیا ہے کہ ہم صرف بخاری و مسلم کو مانتے ہیں کسی عالم یا کسی اور کتاب کو نہیں مانتے، بظاہر یہ بات بہت مذہبی اور اصولی لگتی ہے مگر درحقیقت یہ دین کے فہم کو محدود کرنے، امت کے اجماع کو رد کرنے اور فتنہ پروری کا ایک جال ہے۔ آج ہم دلائل کے ساتھ، نرمی، حکمت و استدلال کے ساتھ یہ واضح کریں گے کہ دین کا ماخذ کیا ہے؟ بخاری اور مسلم کی اہمیت کیا ہے؟ دیگر کتب حدیث اور فقہا کا کردار کیا ہے اور ان دو کتب پر اصرار کرنے کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟
قرآن کی روشنی میں سنت نبویہ کی حیثیت
قرآن مجید، فرقان رشید ہمیں صرف اپنی پیروی کا نہیں بلکہ نبی رحمت شفیع معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت کا حکم دیتا ہے جیسا کہ سورہ حشر میں اللہ فرماتا ہے: جو کچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں رک جاؤ۔ اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ فرماتا ہے: اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو۔
یہاں دو الگ اطاعتیں ذکر کی گئی ہیں؛ نمبر ایک اللہ کی اطاعت، نمبر دو رسول اللہ کی اطاعت۔ سنت کی وضاحت کے بغیر قرآن سمجھ نہیں آ سکتا۔ مثلاً قرآن میں نماز کا حکم ہے مگر رکعات، قیام، سجدہ، قعدہ سب سنت سے ملتا ہے۔ زکوٰۃ کا حکم قرآن میں ہے مگر کون سی چیز پر کتنی زکوٰۃ ہے اس کا پتا سنت سے چلتا ہے۔ حج کا حکم قرآن میں ہے مگر طواف، سعی، رمی وغیرہ سب سنت نے سکھایا۔ ابو داؤد کی ایک حدیث ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سن لو مجھے قرآن کے ساتھ ویسا ہی یعنی سنت بھی دیا گیا ہے۔“
لہٰذا اگر کوئی یہ کہے کہ میں صرف بخاری و مسلم یا صحاح ستہ کے علاوہ کوئی کتاب نہیں مانتا تو گویا وہ بہت سی صحیح احادیث کو رد کر رہا ہے بلکہ یہ ایک روش، یہ طریقہ آج کے دور میں انکار حدیث کا پیدا ہو چکا ہے جو کہ خود امام بخاری اور مسلم کے خلاف ہے کیوں کہ خود امام بخاری نے فرمایا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ میں نے اپنی صحیح بخاری میں صرف وہ احادیث رکھی ہیں جو بالکل صحیح ہوں لیکن تمام صحیح احادیث کو میں نے جمع نہیں کیا۔
ایک بات یاد رہے کہ احادیث صرف بخاری و مسلم میں نہیں بلکہ دیگر کتب احادیث بھی ہیں جن میں صحیح احادیث ہیں اور حدیث کے بڑے ذخیرے میں صرف بخاری مسلم نہیں بلکہ سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، موطا امام مالک، مسند امام احمد، مسند ابی یعلیٰ، مسند امام اعظم، مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ اور ہزاروں ایسی کتابیں ہیں جس کے اندر ہزاروں کی تعداد میں صحیح احادیث موجود ہیں، اگر ہم انہیں رد کر دیں تو ہم دین کا بڑا حصہ کھو بیٹھیں گے۔
فقہا، محدثین اور امت کا اجماع کیوں ضروری ہے؟
کسی بھی حدیث کو سمجھنا، اس حدیث کا فہم و فراست، اس پر عمل کا طریقہ جاننا، مختلف احادیث میں تطبیق دینا، ناسخ و منسوخ کی پہچان، یہ سب کام علمائے امت کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے سورہ نحل میں ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو۔ یہاں اہل علم سے کون مراد ہیں؟ مفسرین نے اس پر بھی بحث کی اور فرمایا کہ مراد علما کی جماعت ہے وہ اس لیے کیوں کہ پہلی امت کے اندر جو کام پیغمبروں کو دیا گیا تھا وہ کام اس امت کے علما کو دیا گیا، لہٰذا فقہا و محدثین کی تشریحات و آرا کو چھوڑ دینا قرآن کے حکم کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہ بات یاد رکھیں کہ دین کوئی نیا تجربہ نہیں یہ امت کی یہ امانت ہے، 1400 سال سے امت کے علما، محدثین، فقہائے عظام اور صالحین امت نے دین کو اس کی مکمل شکل میں منتقل کیا ہے۔
اگر کوئی کہتا ہے کہ مجھے بخاری و مسلم اور قرآن یا صرف صحاح ستہ ہی کافی ہیں تو وہ امت کے اجماع کو رد کر رہا ہے، امت کی علمی میراث کو جھٹلا رہا ہے، صحابہ، تابعین اور ائمہ کو نا قابل اعتماد قرار دے رہا ہے۔ یہ روش فرد پرستی یا گمراہی کی طرف لے جاتی ہے جو کہ بہت بڑا امت کا نقصان ہے۔ صحابہ و تابعین و ائمہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم صرف قرآن اور بخاری مسلم کو مانتے ہیں بلکہ وہ ہر صحیح حدیث کو لیتے اور اس کی تحقیق کرتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ جیسا کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ: ”حدیث خواہ کسی بھی معتبر کتاب میں ہو اگر وہ صحیح ہے تو وہ حجت ہے۔“
ایک بات یاد رکھیں! جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم صرف قرآن، بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کو ہی مانتے ہیں تو اس سے دین کا فہم محدود ہو جاتا ہے۔ نماز، زکوٰۃ، حج و روزہ اور معمولات معاشرت وغیرہ سب چیزوں کی مکمل رہنمائی نہیں مل پاتی اور سب سے بڑی بات جو خطرناک ہے، یوں سمجھو کہ دین اسلام کا سب سے بڑا نقصان ہے، وہ یہ ہے کہ علمائے امت سے بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سوچ آہستہ آہستہ فتنہ انکار حدیث، انکار اجماع اور فرقہ بندی کو جنم دیتی ہے، ہر شخص خود مجتہد بن جاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے دین میں انتشار پیدا ہوتا ہے، ہر شخص اپنی رائے کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ تو میرے عزیزو! دین اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، یہ صرف قرآن اور دو کتب حدیث سے نہیں بلکہ قرآن و سنت، اجماع و قیاس کے مجموعے سے سمجھا جاتا ہے، ہمیں دین کی مکمل تعبیر کو اپنانا چاہیے نہ کہ محدود اور خود ساختہ تعبیر کو۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ یا اللہ ہمیں قرآن و سنت کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، امت کے علما، فقہا اور محدثین کی محنت کو قبول فرما اور ہمیں فرقہ پرستی، تعصب اور بد فہمی سے محفوظ فرما۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔
