| عنوان: | عرب حکمران اور زوال دین |
|---|---|
| تحریر: | سیدہ عائشہ رضویہ |
اس دنیائے رنگ و بو میں بے شمار لوگ آئے، اپنی زندگیاں گزاریں اور چلے گئے۔ ان میں مفسرین بھی ہوئے اور محدثین بھی، علم کلام کے ماہرین بھی اور علم فقہ کے تاجدار بھی، بحر اصول فقہ و حدیث کے شناور بھی اور نحو و صرف کے شہ سوار بھی، علم بلاغت جاننے والے بھی اور فن ادب سے شغف رکھنے والے بھی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر مفسر کو امام طبری رحمۃ اللہ علیہ اور ہر محدث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا درجہ کیوں نہیں ملا؟ آخر ہر متکلم کو امام ابو منصور ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے اور ہر فقیہ کو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے کیوں نہیں جانا جاتا؟ کیا وجہ ہے کہ ہر اصول فقہ و حدیث جاننے والے شخص کو امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نہیں کہا جاتا؟ یہ بھی تو ممکن تھا کہ نحو اور صرف کے ہر عالم کو امام اخفش اور سیبویہ کا درجہ دیا جاتا، مگر کیوں نہیں دیا گیا؟ ہر بلاغت کے ماہر کو امرؤ القیس اور متنبی کے نام سے کیوں نہیں یاد کیا جاتا؟
جب ہم غور و خوض کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اور بہت سارے اسباب ان حضرات کی کامیابی و کامرانی میں کار فرما ہیں، وہیں قلم و قرطاس سے گہرے تعلق نے بھی دنیا کو ان حضرات کا لوہا ماننے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ اگر ان حضرات کی باتیں تحریری صورت میں نہ ہوتیں تو شاید آج ان کا ذکر جمیل ادبی دنیا میں اس شان سے نہ ہوتا جس طرح فی الحال ہے۔
لیکن مضمون نگاری بھی تو ایک مستقل فن ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کئی علوم و فنون کے ایجاد کا سبب ہے، تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ لیکن ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ اسی فن سے متعلق سخت سرد مہری پائی جاتی ہے۔ جہاں اس فن کو زندہ و جاوید رکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے کئی دوسرے ذرائع موجود ہیں، وہیں ایک اہم اور نایاب طریقہ ”تحریری تربیتی کورس“ کی صورت میں بھی ہے۔
تحریری تربیتی کورس محض ایک کورس نہیں، بلکہ اپنے مافی الضمیر کو عمدہ اور نایاب طریقے سے تحریری صورت میں بیان کرنے، زبان و بیان میں ندرت پیدا کرنے، بے جوڑ الفاظ کو ادبی تعبیرات میں ڈھالنے اور اسلوب بیان میں سلاست اجاگر کرنے جیسے عظیم مقاصد کا مجموعہ ہے۔
ایک ماہ کی مختصر مدت میں اس کورس کے ذریعے جہاں ہمیں سوانح نگاری کے متعلق معلومات فراہم کی گئی اور عملی و تحریری طور پر اسے انجام دلایا گیا، وہیں تبصرہ نگاری کو بھی مد نظر رکھا گیا۔ جس طرح اسلوبیاتی ندرت کے اہم نکات بیان کیے گئے، بعینہ انشا پردازی کے اسرار سے بھی آگاہ کیا گیا۔ مسئلہ رموز اوقاف کا ہو یا اسلوب اقتباس میں تصرف کا، ہر ایک کو عام فہم انداز میں مثالوں کے ساتھ بیان کیا گیا۔
”جہاں انشا اور تلفظ“، ”تحقیق و تفہیم“ اور ”قواعد املا و انشا“ جیسی گراں قدر کتابیں پڑھنے کے لیے فراہم کی گئیں، وہیں دوسری ادبی کتابوں کے مطالعے کی جانب بھی توجہ دلائی گئی۔
الغرض: یہ کورس ان تمام افراد کے لیے امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو فن ادب میں مہارت حاصل کرنے کے متمنی ہیں، چاہے وہ اساتذہ ہوں، طالبان علوم نبویہ ہوں یا کوئی اور۔
استاد محترم مولانا ثاقب قمری مصباحی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کی انتھک کوششوں نے ادبی میلان میں مزید اضافہ کر دیا۔ حضرت موصوف کی اصلاح کا طریقہ عام حضرات کی اصلاح سے ممتاز و منفرد تھا، جس کی وجہ سے خامہ فرسائی کرتے ہوئے توجہ اپنے مقصد کی جانب کامل طور پر رہی۔
یہ سارا سلسلہ مرہون منت ہے ناشر مسلک اعلیٰ حضرت، خلیفہ حضور شیخ العالم، حضرت علامہ و مولانا مفتی خالد ایوب مصباحی شیرانی صاحب کا، جن کے لگائے ہوئے تحریکی چمن بنام ”تحریک علمائے ہند“ کے تحت یہ سارا معاملہ اپنے انجام کو پہنچا۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طفیل مجھے ان آداب پر عمل پیرا ہو کر انشا پردازی کرنے اور اپنے قلم سے احیائے دین و ملت اور ابطال بدعت و ضلالت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔
