دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

بابری مسجد کی مختصر تاریخ

بابری مسجد کی مختصر تاریخ
عنوان: بابری مسجد کی مختصر تاریخ
تحریر: صدیقی خادمی

نشیمن پر گری جو بجلیاں ہم یاد رکھیں گے
شہید بابری کی سسکیاں ہم یاد رکھیں گے
رکھیں گے یاد اس کے منبر و محراب و گنبد کو
شکستہ در وہ ٹوٹی کھڑکیاں ہم یاد رکھیں گے

6 دسمبر 1992ء: یہ وہ دن تھا جب روئے زمین پر قیامت صغریٰ قائم ہوئی اور مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کی امانت کو ناجائز طریقے سے شہید کیا گیا۔

بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر (1483ء تا 1531ء) کے حکم سے دربار بابری سے منسلک ایک نامور شخص میر باقی کے ذریعہ سن 1527ء میں اتر پردیش کے مقام ایودھیا میں تعمیر کی گئی۔

بابری مسجد کی انفرادی خصوصیات

بابری مسجد مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک عظیم شاہکار تھی۔ اس کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے تھے، درمیانی گنبد بڑا اور دونوں طرف دو چھوٹے گنبد تھے اور گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر چونے سے پلستر کیا گیا تھا۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا، جس میں صحن بھی شامل تھا۔ صحن میں وضو کا پانی مہیا کرنے کی غرض سے ایک کنواں بھی کھودا گیا تھا۔ ہوا اور روشنی کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی معمولی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں باآسانی سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کا عظیم شاہکار تھی۔

بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں

  1. 1853ء: میں ایودھیا میں پہلے مذہبی فسادات۔
  2. 1857ء: برٹش اس جگہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، مسجد کے اندر مسلمان نماز ادا کریں اور باہر رام چبوترے پر ہندو مذہب کے لوگ پوجا پاٹ کریں، لیکن اس سے دونوں سمودائے کے لوگ خوش نہیں تھے۔
  3. دسمبر 1949ء: ”Akhil Bharatiya Ramayana Mahasabha“ ہندو والے حصے میں نو (9) دن کا رام چرت مانس کا پاٹ رکھتے ہیں، جب پاٹ ختم ہونے والا ہوتا ہے، 22 دسمبر کی رات کو مسجد کے اندر رام للا کی مورتی رکھ دیتے ہیں۔
  4. 1949ء: کو مسجد بند کروا دی جاتی ہے، 5 جنوری 1950ء کو پورا ایریا سیل کر دیا جاتا ہے۔
  5. 1984ء: وشوا ہندو پریشد کی جانب سے ”رام“ کی جائے پیدائش کو آزاد کروانے کے لیے تحریک کا اعلان۔ بی جے پی کے رہنما لال کرشن ایڈوانی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔
  6. 1989ء: وشوا ہندو پریشد نے مسجد سے ملحقہ زمین پر رام مندر کی بنیاد رکھ دی۔
  7. 1991ء: ریاست اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کا قیام۔
  8. جنوری 1992ء: کو مسجد کے ارد گرد ”barriers“ کو ہٹا دیا جاتا ہے، اس سے پہلے اندر جانا منع تھا، اس کے ہٹنے سے اندر آنا جانا آسان ہو گیا۔
  9. 30 اکتوبر 1992ء: کو دھرم سنسد کی میٹنگ ہوتی ہے دہلی کے اندر، اس میں طے ہوا کہ 6 دسمبر 1992ء کو ایودھیا جا کر رام چبوترے سے تھوڑی دور پر بھجن اور کیرتن ہو گا۔
  10. 1 دسمبر 1992ء: سے ہی ہندو سمودائے کے لوگ ایودھیا پہنچنے لگے، ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ پہنچ چکے تھے۔
  11. 6 دسمبر: کو پہلے اپنا بھجن وغیرہ کرتے ہیں۔ جیسے ہی 11:30 بجتے ہیں، سب لوگ مسجد کی طرف بڑھتے ہیں۔ 01:55 ہوتے ہوتے پتا چلتا ہے کہ مسجد کا ایک حصہ شہید کر دیا گیا ہے اور پھر 03:30 ہوتے ہوتے دوسرا حصہ شہید کر دیا جاتا ہے، پھر 04:49 پر ”human chain“ بنا کے لکڑی کا پول لیا اور اس سے مسجد کو مکمل شہید کر دیا۔
  12. اکتوبر 2010ء: الہ آباد عدالت نے فیصلے میں بابری مسجد کی زیادہ تر زمین ہندوؤں کے دو فریقوں کو دے دی۔ تاہم سابقہ مسجد کی زمین کے ایک تہائی حصے پر مسجد کی باز تعمیر کی گنجائش رکھی۔
  13. 10 نومبر 2019ء: کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے بارے میں تمام شواہد قبول کر لیے۔ ہندوستانی جمہوریت سے انکار کرتے ہوئے، بابری مسجد کی سرزمین کو عقیدے کی بنیاد پر ہندوؤں کے حوالے کر دیا گیا۔

وہ رب کا گھر وہ بابر کی نشانی یاد رکھیں گے
تیرے ظلم و ستم کی ہر کہانی یاد رکھیں گے

شکستہ دل از بابری: صدیقی خادمی

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔