دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کا درسِ کسب و تجارت(قسط:اول)

عنوان: مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کا درسِ کسب و تجارت(قسط:اول)
تحریر: علامہ محمد احمد مصباحی ناظمِ تعلیمات جامعہ اشرفیہ
پیش کش: غوثیہ واسطی بنت لئیق نوری عفی عنہما

تخلیقِ انسانی کا مقصد ربِّ کائنات کی معرفت اور اس کی عبادت ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۔ (الذاریات: 56)

ترجمہ: اور میں نے جن و انس کو صرف اس لیے پیدا فرمایا کہ وہ میری عبادت کریں۔

مگر انسانی زندگی کی بقا اور حفاظت کے لیے خور و نوش، لباس و پوشاک، رہائش اور خانہ و مسکن ضروری ہے، اور ان ضروریات کی تکمیل کے لیے کسی نہ کسی حد تک سرمایہ و مال ہونا لابدی ہے۔ اور سرمایہ و مال کا حصول کسی ذریعے کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے عقلی طور پر بھی انسان اپنی زندگی میں حصولِ مال کا ذریعہ اپنانے کا محتاج ہے۔

شریعتِ اسلامیہ نے بھی انسان کی اس محتاجی کو نظر انداز نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے لیے کوئی ذریعۂ کسب اپنانا فرض قرار دیا ہے۔ لیکن اس باب میں اسے آزاد نہیں چھوڑا ہے کہ جہاں سے چاہے، جب چاہے، اور جیسے چاہے سرمایہ حاصل کرتا جائے، خواہ کسی پر زیادتی ہو، کسی کی ایذا رسانی ہو، کسی کی حق تلفی ہو، یادِ الٰہی سے غفلت ہو، عبادتیں فوت ہوں—کچھ پروا نہ کرے، بس زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرنے کی دھن میں لگا رہے۔

پیغمبرِ اسلام ﷺ نے جس طرح کھانے پینے، پہننے، رہنے سہنے کے معاملے میں بندوں کو بہت سے آداب اور حدود و قیود کا پابند بنایا ہے، اسی طرح کسب کے معاملے میں بھی بہت سے آداب اور حدود و قیود سے آشنا کیا ہے۔

اسی سے ایک مومن اور ایک غیر مومن کے طرزِ فکر اور اندازِ حرکت و عمل میں حدِّ فاصل قائم ہوتی ہے، اور دونوں کی زندگیوں میں خطِ امتیاز کھنچتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ساری تعلیمات وحیِ ربانی کے تحت ہیں، اور رب جانتا ہے کہ اس کے بندوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے کون سا نظام نفع بخش ہے اور کون سا نظام ضرر رساں ہے۔

اسلام دراصل اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کا نام ہے۔ اس لیے بندۂ مسلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خواہشِ نفس سے پہلے خدا اور رسول ﷺ کی رضا اور خوشنودی کو دیکھے۔ جس کام میں اپنے جسم و جان کے خالق و مالکِ جلّ جلالہ اور اپنے ایمان و عمل کے بانی و مربی، علیہ الصلوٰۃ والسلام، کی رضا دیکھے، اس کی بجاآوری کرے، اور جس میں ناراضی و غضب کی بو پائے، اس سے دور بھاگے—یہی شانِ ایمان ہے، یہی تقاضائے اسلام ہے۔

دنیائے فانی کی رعنائیوں اور حیاتِ ناپائیدار کی لذتوں پر فریفتہ ہونا اس کا کام ہے جس کے فکر و خیال میں اس جہان کے سوا کوئی جہان نہیں، اور جس کی نظر میں اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ بندۂ مومن تو اس جہان کی آباد کاری کے لیے فکر مند رہتا ہے جس کا ایک دن یہاں کے پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔ اس کا مطمحِ نظر اس حیات کی رعنائیاں ہوتی ہیں جن میں زوال نہیں۔ وہ اس گھر کی ویرانی سے لرزتا ہے جس میں ہمیشہ رہنا ہے۔

چوں کہ تفصیل کی مہلت نہیں، اس لیے اس اجمالی تمہید سے میں نے ان لوگوں کا جواب دینا چاہا ہے جو اسلامی قوانین کو خالقِ کائنات کے غیر متزلزل اور لافانی دستور کی حیثیت سے دیکھنے کے بجائے اپنی آوارہ خواہشات کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ خدا انہیں عقلِ سلیم دے اور صراطِ مستقیم نصیب فرمائے۔

اب آئیے دیکھیں کہ مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ نے کسب اور طلبِ رزق کے باب میں اپنے ماننے والوں کو کیا ہدایات دی ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں:

(۱) طَلَبُ كَسْبِ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ۔ (معجم کبیر للطبرانی، شعب الایمان للبیہقی)

ترجمہ: حلال کمائی کی طلب کرنا فرض ہے، فرائض کے بعد۔

(۲) طَلَبُ الْحَلَالِ وَاجِبٌ عَلٰى كُلِّ مُسْلِمٍ۔ (مسند الفردوس للدیلمی بروایتِ انس بن مالک رضی اللہ عنہ—کنز العمال، علی متقی، ج۴، ص: ۲، حدیث: ۱۱)

ترجمہ: حلال کی طلب ہر مسلمان پر لازم ہے۔

ان حدیثوں سے جہاں طلبِ رزق اور کسب کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے روزی کی جستجو اور طلبِ معاش کو حلال کی قید سے مقید کر دیا ہے—یوں دینی اور اخلاقی نقطۂ نظر کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ روزی کمانے کی تاکید فرماتی ہے، مگر انسان کو آزاد نہیں چھوڑتی، بلکہ اسے جائز اور بے ضرر راہوں کا پابند بناتی ہے۔ انسان کم سے کم تر حاصل کرے یا زیادہ سے زیادہ، لیکن جائز و حلال ہو اور مقصد پاکیزہ و طیب ہونا چاہیے۔

حیثیت اور ناجائز طریقوں سے جمع کی ہوئی دولت ربِّ جلیل کے ہاں کوئی وقعت نہیں رکھتی، نہ ہی فاسد اور خبیث مقاصد کے لیے کمایا ہوا مال اس تاکید و رغبت کے تحت آتا ہے جو آقا دو عالم ﷺ نے اپنی احادیثِ کریمہ میں دی ہے۔

اسلام طیب ہی طیب ہے، اس لیے وہ مقصد، ذریعہ اور مصرف—تینوں کی پاکیزگی چاہتا ہے۔ مال جمع کرنے کا مقصد اچھا ہے، مگر تحصیلِ مال کا ذریعہ خراب ہے؛ یا ذریعہ تو اچھا ہے مگر مقصد ناپاک ہے؛ یا ذریعہ اور مقصد دونوں پاک تھے، مگر جب مال ہاتھ آگیا تو بہت سارا مال ناپاک جگہوں یا لا یعنی اور فضول راہوں میں صرف کر دیا—یہ تینوں صورتیں اسلام کی نظر میں مذموم ہیں، اور ان پر صاحبِ مال سے مؤاخذہ ہوگا۔ مختصر یہ کہ عبادات اور دیگر معاملات کی طرح کسب اور طلبِ رزق کے باب میں بھی ربِّ جلیل کے نزدیک ہر طرح کی پاکیزگی ہی محمود و مطلوب ہے۔ اسی سے اسلامی نظریہ اور خود ساختہ پیمانوں اور اصولوں کا فرق عیاں ہو جاتا ہے۔

اب تفصیل سے گریز کرتے ہوئے کچھ احادیثِ کریمہ پیش کی جاتی ہیں جن سے مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کے لائے ہوئے دین اور ان کی بے بہا تعلیمات کا عادلانہ اور پاکیزہ مزاج سمجھ میں مدد ملے گی۔ پہلے چند آیاتِ کریمہ ملاحظہ ہوں۔ قرآن فرماتا ہے:

(۱) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (سورۂ بقرہ: ۱۷۲)

ترجمہ: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ اور اللہ کا احسان مانو، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔

(۲) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ۝ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ (سورۂ مائدہ: ۸۷، ۸۸)

ترجمہ: اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کیں، اور حد سے نہ بڑھو؛ بے شک حد سے بڑھنے والے اللہ کو ناپسند ہیں۔ اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی—حلال، پاکیزہ—اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔

(۳) وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ (سورۂ اعراف: ۱۵۷)

ترجمہ: اور وہ رسول ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام فرمائے گا۔

(۴) وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (سورۂ بقرہ: ۱۸۸)

ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ، اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لیے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال جان بوجھ کر ناجائز طریقے سے کھاؤ۔

(۵) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (سورۂ نساء: ۲۹)

ترجمہ: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ، مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی سے ہو، اور اپنی جانیں قتل نہ کرو؛ بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔

(جاری.....)

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔