| عنوان: | جلسۂ سیرتُ النبی ﷺ و جشنِ افتتاح صدرُ الشریعہ گرلس ہاسٹل |
|---|---|
| تحریر: | ام ہانی امجدی |
| پیش کش: | ادارہ لباب |
۷؍ دسمبر، بروز اتوار، دوپہر دو بجے صدرُ الشریعہ گرلس ہاسٹل کے جشنِ افتتاح کے پُرمسرت اور تاریخی موقع پر ایک عظیم الشان، باوقار اور روح پرور پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس نے علمی، روحانی اور فکری اعتبار سے سامعین کے دلوں پر گہرے نقوش چھوڑے۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا، جس کے بعد حمدِ باری تعالیٰ اور نعتِ رسولِ مقبول ﷺ نے محفل کو نورانیت اور کیف و سرور سے بھر دیا۔ اس کے بعد محترمہ شمع فاطمہ شمسی صاحبہ نے اپنی پُراثر، مدلل اور فکر انگیز تقریر سے طالباتِ جامعات کو خوب محظوظ کیا اور دلوں کو گرما دیا۔
اسی اثنا میں محفل کی رونق دوبالا ہو گئی، جب صدرِ جلسہ و صدرِ معلمہ محترمہ رضیہ شاہین امجدی صاحبہ اور زوجۂ نبیّرۂ صدرُ الشریعہ (مصنف بہارِ شریعت) محترمہ عالمہ فاضلہ نگار فاطمہ امجدی صاحبہ کی باوقار تشریف آوری ہوئی۔
الحمدللہ! اپنی معلمات کے چہروں کی زیارت اور ان سے بالمشافہ ملاقات میرے لیے کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہ تھی۔ پھر ان کی شفقتیں، محبتیں اور اپنائیت—ایسی کہ ہر دل بے اختیار گرویدہ ہو گیا۔
یہ حسنِ اخلاق، انکساری اور علمی وقار دراصل اس عظیم ادارے کلیۃ البنات الامجدیہ، گھوسی (مؤ) کی پہچان ہے، جسے دنیا چمنِ صدرُ الشریعہ اور دارِ حضور محدثِ کبیر کے نام سے جانتی ہے۔ الحمدللہ! اس چمن کی ہر کلی—ہر معلمہ—اپنے اعلیٰ اخلاق، خلوص اور تدریسی صلاحیتوں کے سبب دیگر اداروں سے نہ صرف ممتاز، بلکہ ممتازٌ مع الشرف نظر آتی ہیں۔
اساتذۂ کرام کے پُروقار استقبال اور نشست کے بعد میری ہم نام محترمہ مفتیہ اُمِّ ہانی امجدی صاحبہ (معلمہ، کلیۃ البنات الامجدیہ) نے اپنی دلکش اور رقت آمیز آواز میں نعتِ نبی ﷺ پیش کی، جس نے دلوں کو جھکا دیا اور آنکھوں کو نم کر دیا۔
اس کے بعد انتظامیہ و کمیٹی کی جانب سے مجھے ناچیز کو دعوتِ خطابت دی گئی، اور دورِ حاضر کے نہایت حساس و سلگتے ہوئے موضوع فتنۂ ارتداد: اسباب، محرکات اور سدِّباب پر گفتگو کی درخواست کی گئی۔
یقیناً خطاب کرنا بذاتِ خود ایک عظیم ذمہ داری ہے، اور ہر خطیبہ پر لازم ہے کہ اسے پوری دیانت، بصیرت اور خوفِ خدا کے ساتھ ادا کرے۔ اس روز اس ذمہ داری کا احساس میرے دل پر کچھ اس قدر غالب تھا کہ بار بار یہی اندیشہ لاحق ہوتا رہا کہ کہیں الفاظ کے انتخاب یا اندازِ بیان میں کوئی کوتاہی نہ رہ جائے۔
تاہم محترمہ مفتیہ اُمِّ الورع امجدی صاحبہ کی پُر زور نظامت، حوصلہ افزا کلمات اور ولولہ انگیز اشعار سے قلب کو سہارا ملا، اور یوں حمد و صلوٰۃ کے بعد منبر پر کھڑے ہو کر فتنۂ ارتداد اور اس کے سدِّباب پر عرض گزار ہونے کی جسارت کی۔
الحمدللہ ربّ العالمین! یوں محسوس ہو رہا تھا کہ آج محض میری تیاری نہیں، بلکہ دعائیں بھی میرے ساتھ ہیں، اور بالخصوص دو معزز و مؤقر معلمات کی خاموش مگر مؤثر دعائیں میرے الفاظ میں اثر پیدا کر رہی ہیں۔
وہ لمحہ تو میرے لیے عید سے کم نہ تھا، جب اساتذۂ کرام کی حوصلہ افزائی اور بالخصوص محترمہ عالمہ فاضلہ نگار فاطمہ امجدی صاحبہ کے لبوں سے تحسین و ستائش کے کلمات سننے کا شرف حاصل ہوا۔
اگرچہ مجھے مختلف علمی و دینی محافل میں شرکت کی سعادت اکثر حاصل ہوتی رہتی ہے، لیکن سچ کہوں تو آج کی یہ محفل، اس کا وقار، اس کا خلوص اور اس کی روحانی فضا کچھ الگ ہی رنگ لیے ہوئے تھی۔ دل بار بار یہ چاہ رہا تھا کہ کاش یہ محفل ختم ہی نہ ہو، اور یہ نور، یہ محبت، یہ علمی ذوق یوں ہی جاری و ساری رہے۔
اللہ تعالیٰ اس عظیم ادارے، اس کی معلمات، منتظمین اور تمام وابستگان کی خدمات کو قبول فرمائے، اور اس پلیٹ فارم کو دینِ اسلام کی اشاعت، تحفظِ ایمان اور تربیتِ صالحات کا مضبوط ذریعہ بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
