| عنوان: | مذاق کی حد کو پہچانیں! |
|---|---|
| تحریر: | عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی |
روزمرہ کی زندگی میں ہم جانے انجانے میں بہت سی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں، مگر جو گناہ سب سے زیادہ عام اور تکلیف دہ ہے وہ ہے ”کسی کے دل کو ٹھیس پہنچانا۔“ یہ دل آزاری اکثر مذاق کے نام پر ہوتی ہے، گھر میں، دوستوں میں، بہن بھائیوں میں، ہر گلی، ہر محلے اور ہر چار شخص کی محفلوں میں۔
اور سب سے تکلیف دہ اور بدترین لمحہ تو تب آتا ہے جب کہا جاتا ہے: ”ارے! برا مان لیا؟ ناراض ہوگئے؟ معاف کرنا، میں نے تو مذاق کیا تھا!“ یاد رکھیں کہ اس جملے سے کبھی کسی کے چہرے پر مسکان نہیں آتی، بلکہ یہی جملہ تو ثابت کرتا ہے کہ مذاق جان کر بنایا گیا، بات دل تک چلی گئی اور اب دل واقعی ٹوٹ چکا ہے۔
بے شک مذاق کرنا بری بات نہیں، کیوں کہ کبھی کبھی یہی ہنسی کسی غم زدہ دل کو خوشی اور سہارا بھی دے دیتی ہے۔ مگر اس کی حد پہچاننا بے حد ضروری ہے۔
کسی کے سادے کپڑے، کسی کا رنگ، وزن، لہجہ، چال، چلن، اخلاق، عادات، کسی کی کمزوری، مجبوری یا غریبی، یہ وہ باتیں ہیں جن پر ہم اکثر بے سوچے سمجھے ہنس دیتے ہیں اور کچھ نہ کچھ بول جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے دو جملے کسی کی پوری زندگی کا درد بن سکتے ہیں۔
اگرچہ کوئی انسان مذاق کو عمر بھر دل میں نہیں رکھتا، لیکن ہماری وجہ سے کسی کا ایک ہی بار دل دکھ جانا ہماری پوری زندگی، بلکہ قبر تک بے سکونی و بے چینی کا سبب بن سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ بروز قیامت حساب کے وقت یہی ہلکے سمجھے جانے والے دو جملے ہمارے گناہوں کے ترازو کو بھاری بھی کر سکتے ہیں، وہ جملے جنہیں ہم نے ہمیشہ معمولی سمجھا تھا، وہ شاید کسی کے دل پر وزنی پتھر کی مانند بوجھ تھے۔
خدارا! مذاق کی حد میں رہ کر ہی مذاق کریں۔ ایسے جملے نہ کہیں جو کسی کے دل پر زخم چھوڑ جائیں۔ کوشش کریں کہ آپ کے کہے ہوئے جملے فقط خوشیاں بانٹیں، دکھ نہیں۔
