| عنوان: | سفر قلم سوچ سے حقیقت تک |
|---|---|
| تحریر: | عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی |
قلم کا سفر دراصل انسان کے شعور کا سفر ہے۔ لفظوں کی یہ دنیا محض تحریر نہیں، بلکہ دل کی دھڑکن، فکر کی روشنی اور روح کی بیداری ہے۔ جب انسان لکھتا ہے تو اس کے اندر ایک نیا جہان سانس لیتا ہے، جہان معرفت، جہان علم، جہان آگہی۔
- لکھنا زندگی ہے؛ کیوں کہ ایک لکھنے والا کبھی رکتا نہیں۔ وہ سوچتا ہے، سمجھتا ہے اور پھر اپنی سوچ کو لہجوں، لفظوں اور معنی کی صورت میں دنیا تک پہنچاتا ہے۔
- لکھنا بندگی ہے؛ کہ قلم کی قسم خود اللہ عزوجل نے کھائی: نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ (قلم اور ان کے لکھے کی قسم) [القلم: 1] پس جسے رب نے قسم میں یاد کیا، وہ کبھی معمولی نہیں ہو سکتا۔
- لکھنا کامیابی ہے؛ کیوں کہ یہ انسان کو اپنے آپ سے ملا دیتا ہے۔ جو لکھتا ہے وہ اپنے ذہن کی بکھری ہوئی کڑیاں جوڑ لیتا ہے، اپنے خیالات کو نکھارتا ہے اور اپنی زندگی کو نظم دیتا ہے۔
- لکھنا کامرانی ہے؛ کیوں کہ الفاظ انسان کو وہ مقام دیتے ہیں جہاں وہ دلوں پر اثر رکھتا ہے، ذہنوں کو روشن کرتا ہے اور زمانے میں اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے۔
- لکھو! اور بالکل خاموش نہ رہو؛ کیوں کہ خاموشی سوچ کو قید کر دیتی ہے، جب کہ لکھنا اسے آزاد کرتا ہے۔
- لکھو! تاکہ لکھنا آئے، کیوں کہ قلم مہارت چاہتا ہے اور مہارت مسلسل محنت سے حاصل ہوتی ہے۔
- لکھو! تاکہ عقل آئے، کہ قلم ذہن کو تراشتا ہے، فکر کو گہرا کرتا ہے اور انسان کو سمجھنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔
- لکھو! تاکہ بڑے انسان بنو؛ ایسے انسان جو لفظوں سے روشنی دیں، محبت پھیلائیں، فکر کا چراغ روشن کریں۔
قلم کو اپنے ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑو؛ کیوں کہ قلم چھوڑنا دراصل خود کو چھوڑ دینا ہے۔ اپنی تحریر کو پیغام بناؤ، خیر کا، محبت کا، آگہی کا پیغام۔ یاد رکھو! قلم امانت ہے، ذمہ داری ہے اور وہ روشنی ہے جو اندھیروں کو چیر کر آگے بڑھتی ہے۔
اسی لیے لکھتے رہو! لفظوں سے دوستی رکھو! اپنے قلم کو اپنا دوست و گواہ بناؤ! اور مسلسل سفر قلم میں چلتے رہو! کیوں کہ سفر قلم ہی وہ سفر ہے جو انسان کو انسانیت کی منزل تک پہنچاتا ہے۔
