| عنوان: | سیرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ |
|---|---|
| تحریر: | محمد کامران رضا |
| پیش کش: | جامعۃ المدینہ فیضان اولیاء احمدآباد، گجرات |
پیارے اسلامی بھائیو! تمام انبیا و رسل کے بعد جہان عالم میں سب سے افضل و اعلیٰ شخصیات صحابہ کرام کی ہیں۔ یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بلاواسطہ شرف تعلیم حاصل کیا اور دین کی اشاعت میں بے شمار مصائب و آلام اٹھائے۔ صحابہ کرام کی دوسروں سے فضیلت اور باہم مراتب کی تفصیل کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
تمام انبیا و مرسلین کے بعد تمام مخلوق الہی انس و جن و ملک (یعنی انسان، جن اور فرشتوں) سے افضل امیر المومنین، محبوب حبیب خدا، صاحب صدق و صفا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد فاروق اعظم، پھر حضرت عثمان غنی، پھر مولا علی، پھر عشرہ مبشرہ، پھر اہل بدر، پھر اہل احد، پھر اہل بیعت رضوان، پھر تمام صحابہ کرام۔ یہی وہ عظیم گروہ ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: ”وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى“ [الحدید: 10] اسی طرح دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ“ [المجادلۃ: 22] اسی طرح اس عظیم گروہ کے فضائل و خصائل اور شمائل قرآن و حدیث میں وارد ہیں، پر ہم نے دو ہی آیات پیش خدمت کیں۔
یوں تو تمام صحابہ کرام ہی مقتدیٰ بہ (یعنی جن کی اقتدا کی جائے) ستاروں کی مانند ہیں لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان ہی نرالی ہے۔ پیارے اسلامی بھائیو! نبوت سے قبل اہل مکہ کفر و شرک، ظلم و ستم، شراب نوشی، بت پرستی وغیرہ کئی برے معاملات میں ملوث تھے، مگر اس وقت بھی چند لوگ ایسے تھے جنہوں نے ان کاموں کو نہ صرف غلط سمجھا بلکہ ان کے خلاف حق کی تلاش میں رہے۔ انہی میں سے ایک شخصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بھی تھی۔
آپ کے متعلق ایک واقعہ ملفوظات اعلیٰ حضرت حصہ 4، صفحہ 60 تا 61 پر ہے۔ مختصر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چند برس کی عمر کے ہوئے تو آپ کے والد آپ کو بت خانہ لے گئے اور کہا: یہ تمہارے بلند و بالا خدا ہیں، انہیں سجدہ کرو۔ جب آپ بت کے سامنے تشریف لے گئے تو فرمایا: میں بھوکا ہوں مجھ کو کھانا دے، میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے، میں پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ وہ بت بھلا کیا جواب دیتا، آپ نے ایک پتھر اس کو مارا جس کے لگنے سے وہ وہیں گر پڑا۔ آپ کے والد نے جب یہ معاملہ دیکھا تو آپ کو غصہ آیا، پھر آپ کے رخسار پر تھپڑ مارا اور وہاں سے آپ (رضی اللہ عنہ) کی ماں کے پاس لائے، سارا واقعہ بیان کیا۔ ماں نے کہا: اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، جب یہ پیدا ہوا تھا تو غیب سے آواز آئی تھی کہ: اے اللہ عزوجل کی سچی بندی! تجھے خوشخبری ہو یہ بچہ عتیق ہے، آسمانوں میں اس کا نام صدیق ہے، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا صاحب اور رفیق ہے۔ یہ روایت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے خود مجلس اقدس (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں بیان کی۔ جب یہ بیان کر چکے، حضرت جبریل امین (علیہ الصلوٰۃ والسلام) حاضر بارگاہ ہوئے اور عرض کی: ابوبکر نے سچ کہا اور وہ صدیق ہیں۔ یہ حدیث امام احمد قسطلانی (رحمۃ اللہ علیہ) نے شرح صحیح بخاری میں ذکر کی۔ [ارشاد الساري شرح صحيح البخاري، ج: 8، ص: 370] [ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص: 60 تا 61، بتصرف]
پیارے بھائیو! حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی بت پرستی نہ کی اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی کو خدا مانا بلکہ آپ ہمیشہ توحید پر رہے۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: ”سب سے بڑی عبادت فقہ یعنی دین میں غور و فکر کرنا اور دین کی سب سے افضل چیز تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔“ [مجمع الزوائد، کتاب العلم، الحدیث: 489، ج: 1، ص: 325]
حضرت صدیق اکبر کی کیا ہی شان ہے، جن کے تقوے کو خود قرآن نے بیان کیا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى“ [اللیل: 17] ترجمہ: اور بہت جلد اس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار ہے۔ اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت سیدنا صدیق اکبر ہیں۔ [تفسیر خزائن العرفان، پارہ: 30]
امام خازن فرماتے ہیں: تمام مفسرین کے نزدیک اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ [تفسیر خازن]
حدیث پاک میں آپ کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ابوبکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر ادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔“ [تاریخ الخلفاء، ص: 40]
پیارے اسلامی بھائیو! مذکورہ فضائل و کمالات کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ اوصاف حمیدہ سے بھی متصف تھے، بلند اخلاق، اعلیٰ کردار، سلامت رو، ملنسار، وعدے کے سچے، عہد کے پکے تھے۔ اور انہی خوبیوں کی بنا پر مکہ مکرمہ اور اس کے قرب و جوار میں آپ رضی اللہ عنہ کو محبت و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب ہم آپ کی سیرت طیبہ کو مختصر انداز میں پیش کرتے ہیں۔
آپ کی ولادت
آپ رضی اللہ عنہ عام الفیل کے اڑھائی سال بعد اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت کے دو سال اور چند ماہ بعد پیدا ہوئے۔ [تاریخ الخلفاء، ص: 24]
نام و نسب
آپ کا نام عبداللہ ہے۔ آپ کا نسب عبداللہ بن عثمان عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش سے ہے اور ساتویں پشت میں شجرہ نسب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ کے والد عثمان کی کنیت ابو قحافہ ہے۔ آپ کی والدہ صاحبہ کا نام ام الخیر سلمیٰ ہے۔
جمہور اہل نسب کے نزدیک آپ کا قدیم نام عبد الکعبہ تھا۔ جب آپ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ تو آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کا نام تبدیل فرمایا اور آپ کا نام عبداللہ رکھ دیا۔ [الاستیعاب في معرفۃ الاصحاب، ج: 3، ص: 315]
آپ کی کنیت اور القاب
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔ آپ اپنی کنیت سے مشہور ہیں، بلکہ عوام الناس تو آپ کی کنیت کو ہی آپ کا نام سمجھتی ہے حالانکہ آپ کا نام عبداللہ ہے۔ صدیق و عتیق آپ کے القاب ہیں۔ صدیق کا معنی ہے ”بہت زیادہ سچ بولنے والا“۔ زمانہ جاہلیت سے ہی آپ اس لقب سے مشہور تھے کیوں کہ آپ ہمیشہ سچ ہی بولتے تھے۔ عتیق کا معنی ”آزاد“ ہے۔ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا: ”أَنْتَ عَتِيقٌ مِنَ النَّارِ“ یعنی تو نار دوزخ سے آزاد ہے۔ اس وجہ سے آپ اس لقب سے مشہور ہوئے۔ [تاریخ الخلفاء، ص: 29]
حضرت صدیق اکبر کا قبول اسلام
آپ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بارے میں مختلف واقعات ہیں۔ ”الریاض النضرہ، ج: 1، ص: 83“ میں جو واقعہ ہے وہ واقعہ بیان کرتا ہوں: حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”حضرت صدیق رضی اللہ عنہ ایک بار ملک شام تجارت کے لیے گئے ہوئے تھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا جو بحیرہ نامی راہب کو سنایا۔ اس نے آپ سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ فرمایا: مکہ سے۔ اس نے پھر پوچھا: کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ فرمایا: قریش سے۔ پوچھا: کیا کرتے ہو؟ فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچا فرما دیا تو وہ تمہاری قوم میں ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہو گے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا کسی کو نہ بتایا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہی واقعہ بطور دلیل آپ کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گلے لگا لیا، پیشانی کو چومتے ہوئے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔“
عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تمام صحابہ عشق و وفا کے پیکر تھے۔ ان کی نس نس میں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سمایا ہوا تھا، ان کی زندگیوں کا ماحصل عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھا۔ اسی لیے ان کا انداز عشق نرالا تھا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غسال کو بھی زمین پر گرنے نہ دیتے تھے۔ تیروں کی بارش میں ڈھال بن کر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آگے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اپنی جان و مال کو لٹانے کے لیے پیش پیش رہتے تھے۔ اور ان کی زندگیوں کا مقصد صرف اور صرف محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خوشنودی تھی۔ قبول اسلام سے لے کر ساری عمر حیات نبی کی ایک ایک ادا کو، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرز زندگی کے ایک ایک گوشہ کو کتاب ذہن میں بہترین طریقے سے انہوں نے منقش کر لیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تمام اصحاب آسمان عشق و محبت کے ستارے ہیں۔ مگر جو محبت کا سوز، عشق کا جو انداز جناب صدیق اکبر کے یہاں نظر آتا ہے، تاریخ محبت کے کسی صفحہ پر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ آپ آسمان محبت کے نیر اعظم ہیں، آپ حسن نبوت کی تجلی اول و انور رسالت کے مظہر ہیں۔ اسی لیے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
جان ہے عشق مصطفیٰ، روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ، ناز دوا اٹھائے کیوں
اب ہم آپ رضی اللہ عنہ کے عشق و محبت سے لبریز 2 واقعات بیان کرتے ہیں۔
-
غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کے اغنیا (یعنی مالداروں) کو حکم دیا کہ وہ اللہ پاک کے راستے میں جہاد کے لیے مالی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ مجاہدین اسلام کے لیے خورد و نوش (یعنی کھانے پینے) اور سواریوں کا انتظام کیا جا سکے۔ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے جس ہستی نے راہ خدا کے لیے اپنی ساری دولت بارگاہ رسالت میں پیش کی وہ صحابی ابن صحابی، عاشق اکبر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے گھر کا سارا مال و متاع آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے یار غار کے اس ایثار کو دیکھ کر فرمایا: کیا اپنے گھر بار کے لیے بھی کچھ چھوڑا؟ تو عرض گزار ہوئے: ”ان کے لیے میں اللہ اور رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔“ (مطلب یہ ہے کہ میرے اور میرے اہل و عیال کے لیے اللہ رسول کافی ہیں)۔
[سبل الہدیٰ والرشاد في سیرۃ خیر العباد، ج: 5، ص: 435]
پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس - حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ، یہ صدیق اکبر کے بیٹے ہیں، آپ نے ایک مرتبہ عرض کیا: ابا جان! فلاں جنگ کے دوران ایک وقت ایسا آیا تھا کہ آپ میری تلوار کے نیچے آگئے تھے۔ اس وقت حضرت عبد الرحمن دشمنوں کی طرف سے جنگ میں شریک تھے (یہ واقعہ آپ کے قبول اسلام سے پہلے کا ہے) اور صدیق اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے جنگ کر رہے تھے۔ حضرت عبد الرحمن عرض کرتے ہیں: میں نے آپ کو صرف اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ آپ میرے والد ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غیرت ایمانی سے بھر پور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے بیٹے! اس دن تم نے تو مجھے اس لیے چھوڑ دیا کہ میں تمہارا باپ ہوں، لیکن اگر تم میری زد میں آ جاتے تو میں کبھی نہ دیکھتا کہ تم میرے بیٹے ہو بلکہ اس وقت تمہیں دشمن رسول سمجھ کر تمہاری گردن اڑا دیتا۔“ [تاریخ مدینۃ دمشق، ج: 30، ص: 128]
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”مجھے تین چیزیں پسند ہیں: (1) حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ پر انوار کا دیدار کرتے رہنا (2) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اپنا مال خرچ کرنا اور (3) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر رہنا۔“ [تفسیر روح البیان، ج: 2، ص: 264]
غزوہ بدر ہو، یا احد، یا فتح مکہ، یا جنگ تبوک، یا خندق، یا واقعہ صلح حدیبیہ ہو، یا واقعہ بیعت رضوان ہو، یا معراج کی تصدیق ہو، یا پھر ہجرت نبویہ کے نا قابل فراموش حسین لمحات ہوں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مونس و غم گسار اور وزیر و مشیر بن کر ہر موڑ پر جاں نثاری اور وفاداری کا ثبوت دیتے چلے گئے۔
پیارے بھائیو! ہم بھی عشق مصطفیٰ کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ہم سے نماز نہیں پڑھی جاتی ہے۔ ہمیں اپنی شادیاں ہندوانہ رسم و رواج اور انگریزوں کی پیروی کرتے ہوئے کرنی ہیں۔ ہمیں معاشرتی زندگی غیروں کے طریقے پر گزارنی ہے، ہم اپنی زندگی غیروں کی طرز پر جینا چاہتے ہیں۔ ہم والدین، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب کے حقوق کے معاملے میں نبوی احکامات کے بالکل خلاف چل رہے ہیں۔ سوائے عشق و محبت کے دعوے کے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ لہذا ہمیں اپنی زندگی کو اسلاف کے طرز عمل پر گزارنا چاہیے۔
فضیلت صدیق اکبر قرآن و حدیث و اقوال بزرگان دین کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى
ترجمہ کنز الایمان: اور بہت جلد اس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار۔
[اللیل: 17]
اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ [تفسیر خزائن العرفان، پارہ: 30]
امام خازن علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: تمام مفسرین کے نزدیک اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ [تفسیر خازن، اللیل، تحت الآیۃ: 19، ج: 4، ص: 384]
اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں۔
[الزمر: 33]
امام فخر الدین رازی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی مشہور تفسیر ”تفسیر کبیر“ میں اس آیت مبارکہ کے تحت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”اس آیت مبارکہ میں ”سچ لانے والے“ سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے اور ”تصدیق کرنے والے“ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات با برکت ہے۔“ [التفسیر الکبیر، الزمر: 33، ج: 9، ص: 452]
اسی طرح حدیث پاک میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان بیان فرمائی گئی۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے تھے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ فرمایا، پھر گلے لگا کر آپ رضی اللہ عنہ کے منہ کو چوم لیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: ”اے ابو الحسن! میرے نزدیک ابوبکر کا وہی مقام ہے جو اللہ کے ہاں میرا مقام ہے۔“ [الریاض النضرہ، ج: 1، ص: 185]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ ایک بار اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں تھا اور رات روشن تھی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں جتنی ہوں گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جی ہاں! وہ عمر ہیں، جن کی نیکیاں ان ستاروں جتنی ہیں۔“ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! پھر میرے والد ماجد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نیکیاں کس درجے میں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی کے برابر ہیں۔“ [مشکاۃ المصابیح، کتاب المناقب، الحدیث: 6068، ج: 3، ص: 349]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے بعد ابوبکر پھر عمر کی اطاعت کرو ہدایت پا جاؤ گے اور ان دونوں کی اقتدا کرو کامیاب ہو جاؤ گے۔“ [تاریخ مدینۃ دمشق، ج: 30، ص: 226]
تین سو ساٹھ خصائل
حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اچھی خصلتیں تین سو ساٹھ ہیں اور اللہ عزوجل جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی ذات میں ایک خصلت پیدا فرما دیتا ہے اور اس کے سبب اسے جنت میں بھی داخل فرما دیتا ہے۔“ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! کیا میرے اندر بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟ ارشاد فرمایا: ”اے ابوبکر! تمہارے اندر تو ساری خصلتیں موجود ہیں۔“ [تاریخ مدینۃ دمشق، ج: 30، ص: 103]
افضلیت صدیق اکبر بزبان فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نزدیک ہم میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔“ [سنن الترمذی، کتاب المناقب، الحدیث: 3474، ج: 5، ص: 372]
افضلیت صدیق اکبر بزبان شیر خدا
حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد (اس امت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ۔ [صحیح البخاری، ج: 2، ص: 522، الحدیث: 3671]
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر سے افضل کہے گا، تو میں اس کو مفتری کی (یعنی تہمت لگانے والے کو دی جانے والی) سزا دوں گا۔“ [تاریخ مدینۃ دمشق، ج: 30، ص: 383]
افضلیت صدیق اکبر بزبان امام اعظم
حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”انبیاے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے بعد تمام لوگوں سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عمر بن خطاب، پھر عثمان بن عفان، پھر علی ابن ابی طالب رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔“ [شرح الفقہ الاکبر، ص: 61]
خلافت صدیق اکبر
ابن سعد، حاکم اور بیہقی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وفات پائی تو صحابہ کرام سعد بن عبادہ کے گھر میں جمع ہوئے اور ان میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ پس خطبائے انصار کھڑے ہوئے اور ان سے ایک نے کہا: اے گروہ مہاجرین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب تم سے کسی کو عامل مقرر فرماتے تھے تو ہم سے ایک کو اس کے ساتھ ملاتے تھے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس امر خلافت کے دو شخص متولی ہوں، ایک ہم میں سے اور ایک تم میں سے۔ (اس بات کا کہنا تھا) کہ تمام انصار نے یکے بعد دیگرے اس بات کی تائید کی۔ اس پر زید بن ثابت نے کھڑے ہو کر کہا: تمہیں معلوم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مہاجرین سے تھے اور آپ کا خلیفہ بھی مہاجرین سے ہونا چاہیے۔ ہم تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مددگار تھے اور اب آپ کے خلیفہ کے بھی مددگار رہیں گے۔ پھر انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ تمہارا صاحب ہے۔ پس حضرت عمر نے آپ کی بیعت کی۔ پھر حضرت ابوبکر منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو نہ پایا، پس ان کو بلوا کر کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی ہو کر چاہتے ہو کہ مسلمانوں کی جماعت کو پراگندہ کرو؟ انہوں نے کہا: اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم! مجھے سرزنش نہ کیجئے۔ پھر انہوں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اس کے بعد پھر آپ نے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرت علی کو نہ پایا، تو انہیں بلوا کر کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور ان کے داماد ہو کر یہ چاہتے ہو کہ مسلمانوں کی جماعت کو پراگندہ کرو؟ انہوں نے کہا: اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم! مجھے سرزنش نہ کیجئے۔ پھر انہوں نے بیعت کر لی۔ [تاریخ الخلفاء اردو، ص: 101]
سایۂ مصطفیٰ، مایۂ اصطفیٰ
عز و ناز خلافت پہ لاکھوں سلام
یعنی اس افضل الخلق بعد الرسل
ثانی اثنین ہجرت پہ لاکھوں سلام
آپ کا نکاح اور اولاد
”صفۃ الصفوۃ“ کے اندر آپ کی چار شادیوں کا تذکرہ موجود ہے۔ پہلا نکاح قتیلہ بنت عبد العزیٰ سے ہوا اور ان سے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور اسما رضی اللہ عنہا پیدا ہوئے۔ دوسرا نکاح ام رومان بنت عامر سے فرمایا، ان سے حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنم لیا۔ تیسرا نکاح اسما بنت عمیس سے منعقد ہوا، ان کے بطن سے محمد پیدا ہوئے۔ چوتھا نکاح حبیبہ بنت خارجہ ابن زید سے فرمایا اور ان سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی ولادت ہوئی۔
آپ کی وفات
دن کے حساب سے 21 جمادی الاخریٰ 13 سن ہجری بمطابق 22 اگست 634 عیسوی اور رات کے حساب سے 22 جمادی الاخریٰ پیر اور منگل کی درمیانی رات مغرب و عشا کے درمیان آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ وفات کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر 63 سال تھی۔
