| عنوان: | کیا مسلمان ہندوستان سے محبت نہیں کرتے؟ |
|---|---|
| تحریر: | عمر سفیر رضوی، جامعۃ المدینہ سنگم، کشمیر |
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
دنیا میں مسلمانوں نے اپنی قوم، اپنے ملک و وطن کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں، اسی طرح جب ہندوستان سے انگریزوں کو سات سمندر پار واپس بھیجنے کا معاملہ آیا تو مسلمانوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ ٹیپو سلطان نے جو قربانیاں پیش کیں 18ویں صدی کی تاریخ میں اس کی مثال نظر نہیں آتی۔ ٹیپو سلطان انگریزوں کے لیے آخری قلعہ ثابت ہوئے۔ انگریزوں کا تسلط جب پورے ہندوستان پر ہو گیا، اس کے بعد انگریزوں نے جو بربریت اور ظلم و ستم کی داستان مسلمانوں کے خون سے لکھی وہ یقیناً بھلائی نہیں جا سکتی۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے ملک کی ہر قوم جدوجہد میں لگی ہوئی تھی مگر سوال یہ تھا پہل کون کرے؟
جب ہندوستانی عوام اسی کشمکش کا شکار تھی اس وقت دہلی کی جامع مسجد سے ایک آواز انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی بلند ہوئی، یہ آواز قائد آزادی استاد مطلق حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی۔ آپ ہی نے وسیع پیمانے پر سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کیا، علما سے اس کی فرضیت پر فتویٰ لیا جس پر اسی وقت دہلی کے 33 علمائے حق نے دستخط ثبت کیے، جس کے نتیجے میں 1857ء کی جنگ آزادی رونما ہوئی جسے انگریزوں نے غدر کہا۔
لیکن افسوس اور دکھ کی بات تو یہ ہے آج مسلمانوں کو وطن کا غدار کہا جا رہا ہے کہ مسلمان وطن سے محبت نہیں کرتے، یہ ایک بے بنیاد اور غلط الزام مسلمانوں پر لگایا جارہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں ملک ہندوستان سے وفا کرنے والے سچی محبت کرنے والے مسلمان ہی ہیں۔ آزادی کے لیے سب سے پہلے انگریزوں کو اس ملک سے دور کرنے کے لیے مسلمان ہی تھے اور مسلمان کیوں نہ اپنے وطن سے محبت کریں، ہمارے دین و اسلام کی تعلیم، ہمارے بزرگوں کی تعلیم ہی یہی تھی کہ اپنے وطن سے محبت کریں۔
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: حُبُّ الْوَطَنِ مِنْ طِیْبِ الْمَوْلِدِ یعنی عمدہ اور نیک طبیعت کے لوگ ہی اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔
ابو عمرو بن العلاء نے کہا: ”آدمی کے معزز ہونے اور اس کی جبلت کے پاکیزہ ہونے پر جو چیز دلالت کرتی ہے وہ اس کا اپنے وطن کے لیے مشتاق ہونا اور اپنے دلی تعلق والوں سے محبت کرنا اور اپنے سابقہ زمانے (کے گناہوں اور معصیت) پر آہ و زاری کرنا ہے۔“
دیکھا آپ نے کہ وطن سے محبت کرنا ہمارے بزرگوں کی تعلیم ہے، الحمد للہ ہم اپنے ہندوستان سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں، اس کے ایک ایک ذرے سے محبت رکھتے ہیں، اپنے ملک کی ایک انچ زمین کسی دوسرے ملک کو دینا گوارا نہیں کرتے۔
غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف نسبت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لَوْلَا حُبُّ الْوَطَنِ لَخَرِبَتْ بِلَادُ السُّوءِ، وَقِيلَ: بِحُبِّ الْأَوْطَانِ عِمَارَةُ الْبُلْدَانِ
اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو پسماندہ ممالک تباہ و برباد ہوجاتے، اسی لیے کہا گیا ہے کہ اپنے وطن کی محبت سے ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی ہوتی ہے۔
وطن سے محبت کرنا کتنا پیارا وصف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی اپنے ملک شہر مکہ مکرمہ سے بڑی محبت فرمایا کرتے تھے۔ جب کافروں نے مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کر دیں تو نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مجبوراً مکہ چھوڑنا پڑا، اس وقت کیفیت یہ تھی کہ حسرت بھری نگاہیں مکہ پر ڈال کر انتہائی رقت انگیز لہجے میں فرمایا: ”تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے، اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجبور نہ کرتی تو تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔“ اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے کس قدر محبت تھی۔
مکہ مکرمہ سے جدا ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو اپنا وطن بنا لیا، جب بھی سفر سے مدینہ طیبہ واپسی ہوتی اس کے اشتیاق میں سواری تیز فرما دیتے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَنَظَرَ إِلَى جُدُرَاتِ الْمَدِينَةِ أَوْضَعَ رَاحِلَتَهُ وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ طیبہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے۔ [صحیح البخاری، فضائل مدینہ]
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ”فتح الباری“ میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:
فِي الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى فَضْلِ الْمَدِينَةِ وَعَلَى مَشْرُوعِيَّةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِينِ إِلَيْهِ
یہ حدیث مبارک مدینہ کی فضیلت، وطن سے محبت کی مشروعیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
اپنے وطن سے محبت کرنا یہ اسلام کی تعلیم ہے، جو آدمی جس ملک میں رہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ملک سے محبت رکھے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان کے غدار ہیں وہ سب سے پہلے اپنے ملک کے غدار وہی ہیں کیوں کہ مسلمانوں کو غدار کہنا یہ غلط اور بے بنیاد ہے، کیوں کہ ہمارے اسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ جس ملک میں رہیں، اس وطن میں رہیں، جس شہر میں رہیں، جس قریہ میں رہیں اس سے محبت، الفت و مروت رکھیں۔
ایک ہندوستانی ہونے کے ناتے ہم پر لازم ہے کہ اپنے ملک اور ملک والوں کی حفاظت کریں، آپس میں اتفاق و اتحاد، محبت رکھیں، اسی میں ہمارے ملک کی آبیاری ہے، اسی میں ملک کی بقا ہے۔ تمام مذاہب والوں کو چاہیے کہ آپس میں مل کر اس ملک کو عروج پر لائیں نہ کہ بھاجپا کے ساتھ مل کر اس ملک کو بلندی سے پستی کی طرف لائیں کیوں کہ آر ایس ایس اور بھاجپا نے ملک ہندوستان کو قومیت اور مذہبیت کی بنیاد پر بانٹ دیا ہے، ایسے لوگوں، ایسے شر پسندوں سے خود کو دور رکھیں۔
میں دعا گو ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے ملک ہندوستان کے حالات میں بہتری لائے، ہمارے ملک کو شاد و آباد رکھے، اللہ ہمارے ملک کو ہر بد نظروں سے محفوظ رکھے، دشمنوں سے محفوظ رکھے، تمام ہندوستانیوں کو آپس میں محبت و اتحاد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
ہے محبت اس وطن سے اپنی مٹی سے ہمیں
اس لیے اپنا کریں گے جان و تن قربان ہم
تجھ پہ آنے نہ دیں گے مصیبت کوئی
اے وطن تیری عزت بڑھائیں گے ہم
میرا دل میرا جان میرا ہندوستان
از قلم: عمر سفیر رضوی
متعلم جامعۃ المدینہ سنگم، کشمیر
