| عنوان: | حافظ ملت علیہ الرحمہ اور علم و عمل |
|---|---|
| تحریر: | محمد شفیع احمد عطاری رضوی، درجہ خامسہ جامعہ نیپال |
علم وہ نافع بخش جو عمل سے مملو ہو اور عمل وہ بہتر جو علم کی روشنی میں انجام پذیر ہو۔ اس لیے علم و عمل دونوں ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف جہاں علم حاصل کرتے وہیں عمل کی بھی حتی الامکان کوشش کرتے۔ اس تناظر میں ہم حضور حافظ ملت شاہ عبد العزیز محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی زندگی میں علم و عمل کے انگنت نقوش ملتے ہیں۔ ذیل میں مختصر تفصیل پیش کی جاتی ہے۔
علم و عمل، قرآن کی روشنی میں:
-
مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا
ترجمہ: اور جو اللہ پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے وہ اسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں۔ [الطلاق: 11] -
وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰى عَلٰى شَیْءٍ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰى لَیْسَتِ الْیَهُوْدُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ هُمْ یَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ
ترجمہ کنز الایمان: اور یہودی بولے نصرانی کچھ نہیں اور نصرانی بولے یہودی کچھ نہیں حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں۔ [البقرۃ: 113]
قرآن پڑھ کر اس پر عمل نہ کرنے والے مسلمان کو تنبیہ:
یہودیوں اور عیسائیوں کی اس روش کے بیان میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کے ان مسلمانوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اس میں بیان کیے گئے احکام سے آگاہ بھی ہیں اور اس کے باوجود ان احکام پر عمل نہیں کرتے اور اگر عمل کرتے بھی ہیں تو فقط ان احکام پر جو ان کی خواہشات کے موافق ہوں اور جو احکام ان کی خواہش کے موافق نہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔
اس سے متعلق ایک حدیث پاک پیش خدمت ہے:
حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کسی بات کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا: یہ اس وقت ہو گا جب کہ علم اٹھ جائے گا۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ والہ وسلم، علم کیسے اٹھ جائے گا حالاں کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھاتے ہیں اور وہ اپنی اولاد کو پڑھائیں گے، اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے زیاد! تیری ماں تجھے گم پائے، میں تمہیں مدینہ کے فہیم لوگوں میں شمار کرتا تھا کیا یہودی اور عیسائی تورات اور انجیل نہیں پڑھتے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس پر عمل نہیں کرتا۔ (اسی طرح مسلمان قرآن تو پڑھیں گے لیکن اس پر عمل نہیں کریں گے اور جو اپنے علم پر عمل نہ کرے وہ اور جاہل دونوں برابر ہیں۔)“ [صراط الجنان، تحت الآیہ]
-
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗ، وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ
ترجمہ کنز الایمان: تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا۔ اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا۔ [الزلزال: 7، 8] -
وَمَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ صَالِحًا یُّكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰتِهٖ وَ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
ترجمہ کنز الایمان: جو اللہ پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے اللہ اس کی برائیاں اتار دے گا اور اسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں کہ وہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ [التغابن: 9]
مندرجہ بالا آیات کریمہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نہ وہ شخص کامیاب ہے جس نے صرف ایمان اور کچھ بھی عمل نہ کیا اور نہ وہ شخص کامیاب ہے جس نے صرف عمل کیا اور ایمان نہ لایا، بلکہ صرف وہی شخص کامیابی کا سہرا اپنے سر سجانے میں کامیاب ہوگا جس نے ایمان کے ساتھ عمل بھی کیا اور یوں کہہ لیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نہ وہ عالم مکمل طور پر کامیاب ہے جو عامل نہ ہو اور نہ وہ عامل کامیاب ہے جو عالم نہ ہو۔
علم و عمل کی فضیلت احادیث کی روشنی میں:
-
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَا أَبْلَاهُ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ
ترجمہ: ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن انسان کے قدم اس وقت تک نہ ہٹ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ سوالات نہ کر لیے جائیں:- اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کس چیز میں خرچ کیا۔
- اور اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں گزار دی۔
- اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا،
- اور کس جگہ یا کس چیز میں خرچ کیا۔
- اور اس کے علم کے متعلق کہ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔“
-
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَنْتَ يَا عُوَيْمِرُ إِذَا قِيلَ لَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَعَلِمْتَ أَمْ جَهِلْتَ؟ فَإِنْ قُلْتَ: عَلِمْتُ، قِيلَ لَكَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا عَلِمْتَ؟ وَإِنْ قُلْتَ: جَهِلْتُ، قِيلَ لَكَ: فَمَا كَانَ عُذْرُكَ فِيمَا جَهِلْتَ أَلَا تَعَلَّمْتَ
ترجمہ: ”تمہاری کیا کیفیت ہوگی جب قیامت کے دن تم سے سوال کیا جائے گا کہ تم عالم تھے یا جاہل، اگر تم نے عالم کہا تو تم سے کہا جائے گا کہ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔ اور اگر تم نے جاہل کہا تو تم سے کہا جائے گا کہ تمہارا کیا عذر ہے کہ جاہل رہے۔ خبردار! علم سیکھو۔“ [اقتضاء العلم العمل، ص: 19]
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم سے مراد علم دین ہے نہ کہ دنیوی علم۔ [مرآۃ المناجیح، تحت شرح الحدیث: 5197]
-
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَعَلَّمُوا مَا شِئْتُمْ أَنْ تَعَلَّمُوا فَلَنْ يَنْفَعَكُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى تَعْمَلُوا بِمَا تَعْلَمُونَ
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرماتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کہ جو چاہو سیکھو لیکن اللہ تعالیٰ صرف اسی علم پر تمہیں نفع دے گا جس پر تم نے عمل بھی کیا۔“ [اقتضاء العلم العمل، ص: 21]
اس موضوع پر تو بہت سی احادیث کریمہ دال ہیں، لیکن مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے ہی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہی شخص صحیح معنوں میں کامیاب و فلاح ہے جس نے اپنے علم پر عمل بھی کیا۔ ہر ذی عقل شخص اس کو سمجھ سکتا ہے۔
عالم بے عمل مثل شمع
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”عالم بے عمل مثل شمع کے ہے کہ خود جلتا ہے اور تمہیں روشنی پہنچاتا ہے۔“ یہ محاورہ ایسا ہے جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنۡسَوْنَ اَنۡفُسَکُمْ وَاَنۡتُمْ تَتْلُوۡنَ الْکِتٰبَ
ترجمہ کنز الایمان: کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو تو کیا سمجھتے نہیں۔ [البقرۃ: 44]
یا اس سے بڑھ کر ارشاد ہوا:
اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ شَیْـًٔا وَّلَا یَہۡتَدُوۡنَ
ترجمہ کنز الایمان: کیا اگر ان کے آبا و اجداد کسی چیز کی عقل نہ رکھتے ہوں اور نہ ہی راہ یافتہ ہوں۔ [البقرۃ: 170] [فتاویٰ رضویہ، ج: 19، ص: 619]
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کا قول:
- علم کی اہمیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو یہ جواب عنایت فرمایا: ”علم کی اہمیت کا مسئلہ ایسا متفق علیہ ہے کہ اس میں کسی کا اختصاص نہیں، جاہل سے جاہل بھی علم کو بڑی اہم اور عظیم دولت سمجھتا ہے، دنیا کا علم بھی عزت و اقتدار کا ضامن ہے، چہ جائے کہ علم دین کہ یہ وہ دولت عظمیٰ اور عظمت کبریٰ ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات اور ممتاز کائنات بناتی ہے، مگر علم پر عامل ہونا شرط ہے۔“ [ملفوظات حافظ ملت، ص: 54، 55]
- ”قابل قدر وہ نہیں جو عمدہ لباس میں ملبوس ہے، اور علم و ادب سے بے بہرہ ہے، بلکہ لائق تعظیم وہ ہے جس کا لباس خستہ اور سینہ علم سے معمور ہے۔“ [ملفوظات حافظ ملت، ص: 89]
حافظ ملت کا عمل:
علم اور عمل ایک مرتبہ فرمایا: ”اس روز ایسا بھی آیا کہ ایک باسی روٹی رکھی تھی، مغرب بعد لے کر ہم کھانے بیٹھے، فقیر نے دروازہ پر آواز دی، ہم نے آدھی اسے دے دی، آدھی خود کھائی کیوں کہ ہم نے پڑھا تھا:
نیم نانے گر خورد مرد خدا
بذل درویشاں کند نیم دگرے
ہم نے خیال کیا کہ اگر اس پر عمل ہم نہ کریں گے تو کون کرے گا۔“ [ملفوظات حافظ ملت، ص: 111]
”ہم سے لوگوں نے علم پڑھا، عمل نہیں پڑھا (جیسا کہ چاہیے) علم اور عمل ہمارے شاگردوں میں مدرس، مفسر، خطیب، مفتی، مقرر، مفکر، مصنف، مناظر سبھی ہیں مگر عبد العزیز کوئی نہیں ہوا، ہم نے صدر الشریعہ سے علم پڑھا تو عمل بھی پڑھا، چلنا بھی پڑھا، دیکھنا بھی پڑھا، کھانا پینا بھی پڑھا غرض کہ ان کی ہر ایک راہ کو اپنایا۔“ [ملفوظات حافظ ملت، ص: 18]
بالآخر مذکورہ کلاموں سے یہ بات روشن و عیاں ہو جاتی ہے کہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ذات نے جہاں علم حاصل کیا وہیں اس پر عمل بھی کیا۔ یہ کہہ لیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حافظ علیہ الرحمہ کی ذات مذکورہ کلاموں کا علی وجہ الأکمل سرتاپا نمونہ تھی۔ واقعی وہ شخص ہی صحیح معنوں میں کامیاب ہے جس کے قول و فعل میں تضاد و تغایر نہ ہو، یہ بات آپ علیہ الرحمہ کی ذات میں واضح طور پر پائی جاتی ہے، کہ جیسا آپ کا قول ویسا آپ کا فعل۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حافظ ملت اور بزرگان دین کے فیضان سے مالامال فرمائے اور دونوں جہاں میں اپنی رحمت میں رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔
20 نومبر 2025ء
