عنوان: | کتاب کسی کی، نام کسی اور کا |
---|---|
تحریر: | مولانا عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
کچھ شہرت کے بھوکے جنہیں کتاب لکھنا یا ترجمہ کرنا نہیں آتا، وہ بجائے اس کے کہ کتاب لکھنا اور ترجمہ کرنا سیکھیں، دوسروں سے کتابیں لکھوا کر مصنف کے طور پر اپنا نام ڈال کر شہرت کے طلبگار ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے بیسوں واقعات ہوئے کہ کتاب کسی نے لکھی اور منسوب کسی اور کی طرف ہوئی۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ ایسے شہرت پسند لوگ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کوئی عالم یا علامہ کے نام سے موصوف ہے تو کوئی پیر و مرشد کا لبادہ اوڑھ کر نہ صرف عام لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے بلکہ گروہ علماء کو دھوکہ دینے کے ساتھ ان کے نام کو بدنام کرنے کی پوری سازش کر رہا ہے۔ حالانکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے وہ بہت بڑا تیر مار لیں گے اور دین کے عظیم خدمت گار ٹھہریں گے۔
خود دینِ اسلام نے اس چیز کی اجازت نہیں دی کہ کسی اور سے کتاب لکھوا کر، ترجمہ کروا کر، یا کسی عربی کتاب کا اردو ترجمہ بغیر مترجم کا نام لکھے مصنف کے طور پر اپنا نام ڈلوا کر دوسروں کی چیزیں چوری کی جائیں۔ یہ شرعاً، اخلاقاً، اور قانوناً کسی بھی اعتبار سے جائز نہیں ہے۔
لہٰذا جب کسی عالم یا پیر کے متعلق معلوم ہو کہ حضرت نے فلاں کتاب لکھی ہے تو پہلے ان کی صلاحیت و قابلیت پر بھی ایک نظر کر لی جائے کہ واقعی ان کے اندر اتنی قابلیت ہے کہ اس موضوع پر اس انداز میں کتاب لکھ سکتے ہیں، یا دوسرے سے لکھوا کر پیر صاحب نے مصنف کے طور پر اپنا نام ڈلوا دیا۔ ویسے علمی دنیا میں اسے علمی سرقہ کہا جاتا ہے کہ کسی کا کام چوری کر کے اپنے نام سے چھاپ دیا جائے۔
اللہ پاک ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔
ایک شخص لکھتے ہیں:
یہ کریڈٹ لوٹنے کا زمانہ ہے، اس لیے اس کی پروا ہی نہیں کی جاتی کہ سرقہ یا چوری مذہب و اخلاق کے ہر اعتبار سے ایک مذموم عمل ہے۔ چوری صرف مال و اسباب ہی کی نہیں ہوتی بلکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کسی علمی بات یا تحقیق وغیرہ کو اپنی طرف منسوب کرنا چوری کے زمرے میں آتا ہے، لیکن اسے تہذیب کے ساتھ "علمی سرقہ" کہتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ علمی سرقہ چند اعتبار سے مال و اسباب کے سرقے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ افسوس کہ فی زمانہ بڑی جرأت مندی کے ساتھ یہ عمل انجام دیا جاتا ہے، اور دنیادار ہی نہیں، دین دار سمجھے جانے والے لوگ بھی اس سے دریغ نہیں کرتے۔ کتابیں، مقالات، مضامین، اور مفصل و مختصر تحریریں، حتیٰ کہ استفتا و سوالات تک اس کی زد سے بچ نہیں پا رہے ہیں۔ کسی کی بات نقل کرنا برا نہیں، مگر اسے اپنا کہہ کر پیش کرنا ایک ناجائز اور نامناسب حرکت ہے۔
ایک شخص نے لکھا:
وہابیوں، دیوبندیوں، نجدیوں کی ناپاک عادت تھی کہ وہ ہمارے پہلے کے بزرگانِ دین کی تصنیفات و تالیفات و حواشی کو نام اڑا کر شائع کر رہے تھے، مثلاً میزان الصرف، نحوِ میر، ہدایۃ النحو، پنج گنج، جلالین شریف، تاکہ پڑھنے والے کو معلوم ہو کہ جب کتاب دیوبند سے چھپی ہے تو اس کے مصنف اور محشی بھی وہابی، دیوبندی، نجدی ہی ہوں گے، معاذ اللہ! حالانکہ وہ سب کتابیں پہلے کے بزرگانِ دین کی ہیں جب کہ دیوبند کا وجود بھی نہیں تھا۔ پھر جب انہیں منع کیا گیا تو اب ان وہابیوں، دیوبندیوں، نجدیوں نے نام کے ساتھ شائع کرنا شروع کر دیا۔
یعنی اس طرح کرنا دیوبندیوں کا فعل رہا ہے، لہٰذا کوئی بھی سنی بھائی اس طرح کبھی نہ کریں۔
معزز قارئین!
جب بھی کوئی محرر اپنی تحریر کسی اور کے نام سے جاری ہوتا دیکھے گا تو یقیناً اسے تکلیف پہنچے گی کہ محنت میری جب کہ نام کسی اور کا۔ لہٰذا کسی کو بھی حق حاصل نہیں، اگرچہ وہ دینی یا دنیوی کسی بڑے منصب و عہدے پر فائز ہو، کہ وہ کسی دوسرے کی تحریر، مضمون یا کتاب اپنے نام سے شائع کرے۔
اللہ پاک ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین۔