عنوان: | قرآن کریم سننے کے فضائل و برکات |
---|---|
تحریر: | ام معاویہ عطاریہ |
قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کی وہ واحد کتاب ہے جس کا پڑھنا، سننا، دیکھنا، چھونا، سیکھنا اور سکھانا سب عبادت ہے، اور ہر عمل پر ثواب ملتا ہے۔ قرآنِ کریم کی تلاوت کے فضائل سے ہم بخوبی واقف ہیں، لیکن قرآن سننے کے جو آداب اور رواج ہمارے اسلاف میں موجود تھے، وہ آج بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن سننے کے فضائل سے آگاہی حاصل کریں تاکہ تلاوت کے ساتھ ساتھ سننے کا بھی ذوق و شوق ہمارے دلوں میں پیدا ہو۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
ترجمہ (کنز العرفان): اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (سورۃ الأعراف، آیت: 204)
جہاں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کے فضائل مروی ہیں، وہیں قرآنِ کریم کی تلاوت سننے کے فضائل کے متعلق بھی کئی روایات مروی ہیں۔ چنانچہ مروی ہے کہ:
جس نے قرآنِ کریم کی تلاوت سنی تو اس کے لیے ہر حرف کے بدلے ایک نیکی لکھی جائے گی۔ (جمع الجوامع، حرف الیاء، 7 / 235، حدیث: 22720)
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! کتاب اللہ کی ایک آیت سننا پہاڑ (جبلِ صَبِیْر) کی مثل صدقہ کرنے کے اجر سے زیادہ عظیم ہے۔ (جمع الجوامع، حرف الواو، 8 / 82، حدیث: 23615)
کان لگا کر قرآن سننے والے سے دنیا کی تکلیف دور کر دی جاتی ہے اور پڑھنے والے سے آخرت کی مصیبت۔ قرآن کی ایک آیت سننے والے کے لیے یہ سننا سونے کے پہاڑ سے بہتر ہے، اور قرآن کی ایک آیت تلاوت کرنے والے کے لیے یہ پڑھنا آسمان کے نیچے موجود تمام اشیاء سے بہتر ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذکار، 10 / 265، حدیث: 2359)
جو شخص قرآنِ شریف کی کوئی آیت سنتا ہے، بروزِ قیامت وہ آیت اس کے لیے نور ہوگی۔ (مسند امام احمد، احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ 845)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! میں آپ کو قرآن سناؤں، حالانکہ قرآن تو آپ ہی پر نازل ہوا ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اسے کسی دوسرے سے سنوں۔‘‘
چنانچہ میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچا:
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بس کرو۔‘‘
میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن)
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذاتِ خود قرآن سننے کے عمل کو پسند فرماتے تھے۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی تلاوت سننے سے:
دلوں کے زنگ دور ہوتے ہیں، دل کی سختیاں دور ہوتی ہیں، دل نرم ہوتے ہیں (اور جب دل نرم ہو تو عبادت کی لذت نصیب ہوتی ہے)، اور یہ نزولِ رحمت کا باعث ہے۔
حالیہ سائنسی تحقیقات سے بھی معلوم ہوا ہے کہ قرآن کی تلاوت اور اس کا سننا انسان کے دماغی سکون، دل کی دھڑکن، اور اعصابی نظام پر مثبت اثرات ڈالتا ہے۔ بہت سے غیر مسلم بھی صرف قرآن سننے سے متأثر ہو کر اسلام کی طرف مائل ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ کریم پڑھنے، سننے، سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین