✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

آج بھلائی کم اور برائی زیادہ کیوں

عنوان: آج بھلائی کم اور برائی زیادہ کیوں
تحریر: المیرا قادریہ رضویہ
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس دنیا میں بظاہر ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو اچھائی اور نیکی کی تلقین کرتے ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں برائی کی طرف راغب کرنے والوں کی تعداد کم ہے؟ پھر بھی اگر ہم اثرات کا جائزہ لیں تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ برائی اور فساد زیادہ پھیل چکے ہیں جبکہ اچھائی اور بھلائی کافی کم ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

اگر پوچھا جائے کہ کسی بھی بات، کام، دوا، وظیفہ، خطاب، یہاں تک کہ کسی بیمار کی تیمارداری و خدمت، الغرض کوئی بھی چیز پُر اثر کب ثابت ہوتی ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ جو چیز جتنا خالص ہوگی، اس میں اتنا زیادہ اثر ہوگا۔

اسی لیے آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ جب کوئی شخص صرف رسمی طور پر کچھ کہتا ہے تو وہ بات بے اثر لگتی ہے، لیکن اگر وہی بات کوئی دل کی سچائی سے، خلوص کے ساتھ کہے تو وہ دلوں کو فتح کر لیتی ہے۔

اگر کوئی شخص ایک کام صرف اپنی ذمہ داری سے چھٹکارا پانے کے لیے انجام دے تو وہ کام محض ایک فریضہ بن کر رہ جاتا ہے، لیکن اگر وہی کام کوئی شخص دل و جان سے خلوص کے ساتھ انجام دے تو وہ معمولی آدمی بہت سے ہارے ہوئے اور مایوس دلوں کے لیے ایک بڑا حوصلہ بن جاتا ہے، اور اس کے خلوص کی بدولت کوئی بے جان ہنر بھی دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔

دوا کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ خالص ہو، ورنہ ملاوٹ کی وجہ سے نہ صرف حقیقی فوائد حاصل نہیں ہوتے بلکہ طبی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح، کسی عامل کے پڑھنے والے وظیفے یا بنائے جانے والے تعویذ کا اثر اس کے دل کی خلوص پر منحصر ہوتا ہے؛ جتنا خالص دل ہوگا، اتنا ہی اثر ظاہر ہوگا۔ اگر دل میں اخلاص نہیں ہوگا تو اثر بھی خالی ہوگا۔

خاطب کا اصل مقصد چھوڑ کر منبر پر اپنی خواہشات کے لیے بولنا اس کے الفاظ کو موثر نہیں بناتا۔ مخلصی سے خطاب کرنے سے ہی دل و اعمال متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح، اگر کسی بیمار کی خدمت محض رسم کے طور پر کی جائے تو وہ بوجھ بن سکتی ہے، جبکہ ایک خلوص سے دی گئی مسکراہٹ یا پانی کا گلاس صحت میں بہتر اثر ڈال سکتا ہے۔ اخلاص کا اثر ضروری ہے جیسے پودے کو بڑھنے کے لیے پانی اور دھوپ۔

معاشرے میں نیکی پھیلانے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جب کہ بدی پھیلانے والے کم ہیں، لیکن اس کے باوجود نیکی کی مقدار کم اور بدی کی مقدار زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے۔ ہاں، مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس خلوص کے ساتھ ایک فسادی برائی پھیلانے میں مصروف ہے، اس خلوص کے ساتھ نیکی کی جانب لوگوں کو بلانے والے بہت کم ہیں۔

جی، برائی پھیلانے والا جب اپنی کوشش شروع کرتا ہے کسی میں کوئی فساد پیدا کرنا ہو، چاہے کسی کے ذہن کو برائی کی طرف مائل کرنا ہو، اس کا پورا فوکس اپنے مقصد پر ہی رہتا ہے۔ اپنی پوری طاقت اس مقصد میں لگا دیتا ہے، ہر وقت اسی کی کوشش میں رہتا ہے اور ایسا نہیں کرتا کہ ابھی خیال آیا اور ابھی ہی کر دیا۔ بلکہ اگر وہ ارادہ کر لے کہ فلاں کو اس گندگی میں مبتلا کروں گا تو اس کے لیے ایک پوری منصوبہ بندی تیار کرتا ہے کہ فلاں کے ساتھ اچھا تعلق بناؤں گا، پھر اس کی تعریفیں کروں گا، پھر اس کو اپنا آقا سمجھتا ہوں ایسا ظاہر کروں گا، پھر جس گندگی کی طرف مائل کرنا ہے، اس کے فوائد بتاؤں گا، پھر اسے بتاؤں گا کہ میں خود بھی یہ کرتا ہوں، پھر اسے کچھ ایسے لوگوں کی سنگت میں لے جاؤں گا جو اس گندگی میں مبتلا ہیں تو دھیرے دھیرے وہ خود بخود اس کی طرف مائل ہو جائے گا۔ پھر بس میں اسے موقع بتاؤں گا اور وہ کر بیٹھے گا۔

یہاں تک کہ اگر اس کے اپنے دشمن سے دوستی کرنی پڑے تو یہ بھی کر لیتا ہے، لیکن نیکی پھیلانے والے بیشتر ایسے ہیں جو کسی کو بھلائی کی طرف بلانے سے پہلے اپنے دل پر ایک نظر بھی نہیں کرتے کہ آخر میں کیوں کر رہا ہوں۔ بس کہہ دیتے ہیں کبھی اپنی تعریف کے لیے، کبھی ریاکاری کے لیے۔ اگر کسی کی اصلاح کرنی ہو تو کبھی اس طرح کہہ دیتے ہیں کہ سامنے والا ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے، اور اصلاح پر غور کرنے کی بجائے کہنے والے کی عداوت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس طرح پھر وہ بھلائی کی دعوت صرف الفاظ اور دعوت تک ہی محدود رہتی ہے۔ نہ اس سے کسی کے دل اور عمل میں تبدیلی آتی ہے، نہ معاشرے میں اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔

اگر آپ اور میں حقیقت میں چاہتے ہیں کہ اچھائی عام ہو تو ہمیں بھی اخلاص کی دولت کو حاصل کرنا ہوگا۔

لہٰذا جب کسی کو بھلائی کی طرف بلانا درکار ہو تو سب سے پہلے ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا کہ میں یہ کیوں کر رہا ہوں؟ اگر آپ کا جواب ہے کہ میں اللہ و رسول ﷺ کی فرمانبرداری کے لئے کر رہا ہوں تاکہ اس سے میرا خدا مجھ سے راضی ہو، تو آپ ٹھیک راہ پر ہیں لیکن اگر آپ کا کسی کو دعوت دینا اللہ و رسول ﷺ کی رضا کے علاوہ کسی اور مقصد کے تحت ہے تو پھر چاہے آپ کی دعوت سے کوئی بھلائی کی طرف آ بھی جائے لیکن آپ بہت بڑے خسارے میں رہ جائیں گے اور بروز قیامت یہ آپ کے لئے شدید افسوس کی وجہ بن کر رہ جائے گا۔ لہٰذا کوئی بھی نیکی کرنے یا بھلائی کی دعوت دینے سے پہلے اپنی نیت کو ضرور درست کرنا ہوگا۔ اور ہم پہلے ہی جان چکے ہیں کہ کسی بھی بات سے انقلاب اور اثر تب ہی ہوتا ہے جب وہ پورے اخلاص کے ساتھ کی جائے۔

اب آئیے، یہ سمجھتے ہیں کے جب کوئی بندہ اللہ تعالی کی رضا کے لیے کسی کی اصلاح کرتا ہے یا نیکی کی دعوت دیتا ہے، تو کس طرح انجام دیتا ہے جس سے حقیقت میں اس کا اثر ہوتا ہے:

سب سے پہلے تو وہ خاموشی سے غور و فکر کر کے دیکھتا ہے کہ جس کی میں اصلاح کرنے جا رہا ہوں، یا جس کو بھلائی کے طرف بلانے جا رہا ہوں حقیقت میں اس کو اس کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر جواب منفی ہو تو وہی رک جاتا ہے اور مثبت ہو تو آگے بڑھتا ہے۔

اب وہ یہ دیکھتا ہے کہ جس کو مجھے بھلائی کی طرف بلانا ہے اس کے ساتھ میرا کیا تعلق ہے؟ اور کیسا ہے؟ میرے دعوت دینے سے اس کو کیسا محسوس ہوگا؟ ایسی صورت تو نہیں کہ میرے دعوت دینے سے وہ بغض و عداوت میں مبتلا ہوگا، اگر ایسا ہے۔ تو وہ پہلے اپنا تعلق اس بندے سے ٹھیک کرتا ہے۔ کیونکہ دونوں کے درمیان کسی بھی طرح کا اختلاف ہوگا تو اس کا دعوت دینا بھلائی نہیں، بلکہ جگھڑے اور قطع تعلقی کا باعث بن جائے گا۔ لہٰذا کچھ بھی کہنے سے پہلے وہ اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرتا ہے۔ اس سے دیگر خیر خواہی کرتا ہے جو اس کو بھلی معلوم ہوتی ہوں۔ تحائف دیتا ہے اور سلام میں پہل کرتا ہے۔

پھر اگر کسی بات میں اس کی اصلاح مقصود ہو تو موقع دیکھتا ہے، پھر خوب نرمی سے سجھاتا ہے، چونکہ ان دونوں کے درمیان کوئی عداوت نہیں ہے، محبت کا تعلق ہے۔ لہٰذا وہ سامنے والا اسے دوست جان کر قبول کر لیتا ہے۔ اور ایک مخلص جب کسی کو نیکی دعوت دیتا ہے تو سب سے پہلے اسے نہ کرنے کے نقصان بتاتا ہے جس سے اس کو یہ محسوس ہو کہ میں خسارے میں ہوں، اور کرنے کے فوائد بھی بتاتا ہے جس سے سن نے والے کو کرنے میں دلچسپی حاصل ہو۔ اور وہ خود ضرور اس پر عمل کرتا ہے۔ اور جس کو دعوت دیتا ہے اسے یوں نہیں کہتا کے تو کر بلکہ خود بھی اس کے ساتھ کرتا ہے۔

یاد رکھیے ! ہم نے یہ عمل کس لیے کیا تھا؟ ہمارا مقصد تو اللہ کو راضی کرنا تھا اور ہم نے اسی کے لیے کوشش کی تھی۔ بس بندے کا کام تو عمل کرنا ہے باقی قبولیت تو میرے رب کی مرضی ہے۔ اور مخلص طالبِ آخرت کی کوشش کبھی ناکام نہیں جاتی۔ یہ میں نہیں میرے رب کا سچا پاک کلام یہ اعلان کر رہا ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا (بنی اسرائیل: 19)

ترجمۂ کنز الایمان: اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے اور ہو ایمان والا تو انہیں کی کوشش ٹھکانے لگی۔

اس آیت سے صاف ظاہر ہو گیا: جب کوئی ایمان والا آخرت میں بہتری کے حصول کی نیت کرے، پھر اس کے لیے عمل کرے یعنی کوشش کرے، تو ضرور کامیاب ہوگا اور ہم سب جانتے ہیں کہ آخرت کی بہتری تب ہی حاصل ہوگی جب اللہ تعالٰی راضی ہوں گا۔ جس سے اللہ راضی نہیں، اس کے لیے تو کوئی خیر ہے ہی نہیں۔

اب آپ جان چکے کے معاشرے میں بھلائی پھیلنے میں کیا رکاوٹ ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔ تو اب جس کو یہ قبول ہو کے وہ کسی کو بھلائی کی طرف بلائے یا کسی کی اصلاح کرے، تو اس کو اخلاص کے ساتھ کوشش درکار ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے آپ کو اور مجھے اخلاص والا دل، پر اثر زبان اور قبول ہونے والا عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی امین ﷺ ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں