عنوان: |
بچوں کی ضد شرعی و نفسیاتی رہنمائی
|
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
بچوں کی ضد والدین اور سرپرستوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ ہر دور میں بچوں کی تربیت ایک اہم موضوع رہا ہے، لیکن آج کے نفسیاتی دباؤ، سوشل میڈیا کے اثرات، اور خاندانی نظام کی تبدیلی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اگر بچے کی ضد کو نظر انداز کر دیا جائے تو وہ بگڑ سکتی ہے، اور اگر سختی سے دبا دی جائے تو اس کی شخصیت دب سکتی ہے۔ اس مضمون میں ہم شرعی تعلیمات اور جدید نفسیاتی تحقیق کی روشنی میں ضدی بچوں کی تربیت کے اصول تلاش کر کے بیان کر رہے ہیں۔
ضد کی تعریف اور اسباب
ضد سے مراد وہ رویہ ہے جس میں بچہ کسی بات پر اَڑ جائے، چاہے وہ درست ہو یا غلط۔ یہ رویہ کبھی وقتی جذبات کی شدت کا نتیجہ ہوتا ہے، اور کبھی کسی گہرے نفسیاتی مسئلے یا محرومی کا اظہار۔
ضدی پن کے اسباب و حل
ضدی رویہ اکثر بچے کی فطرت نہیں بلکہ اس کے ماحول، والدین کے رویے اور تربیتی خلا کا عکس ہوتا ہے۔ جب بچہ ضد کرتا ہے تو وہ محض کسی شے پر اصرار نہیں کر رہا ہوتا، بلکہ اس کے اندر کوئی جذباتی پیغام چھپا ہوتا ہے۔ شاید وہ والدین کی غیر منقسم توجہ چاہتا ہو، یا کسی الجھن یا محرومی کا اظہار کر رہا ہو۔ اکثر والدین لاعلمی میں محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ بچے کی ہر چھوٹی بڑی خواہش کو فوراً پورا کرتے ہیں، نتیجتاً بچہ یہ سیکھ لیتا ہے کہ ضد ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ گھر کا ماحول بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جہاں مسلسل لڑائی جھگڑا ہو، بے جا سختی یا لاپرواہی ہو، وہاں بچے کا دل نرم اور مطمئن نہیں رہتا، اور وہ اپنی بے چینی کو ضد کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ والدین کا غیر مستقل رویہ، مثلاً کبھی سختی اور کبھی نرمی، بچے کے ذہن کو الجھا دیتا ہے کہ کون سا طریقہ مؤثر ہے، اور وہ بالآخر ضد کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات بچہ اپنے آس پاس کے بچوں یا بڑوں کو ضد کرتے اور کامیاب ہوتے دیکھتا ہے، اور نقل و مشابہت کے فطری رجحان کے تحت وہی طرزِ عمل اپنا لیتا ہے۔
درحقیقت، ضدی پن کے پیچھے ایک خاموش سی چیخ ہوتی ہے۔سمجھے جانے کی، سنے جانے کی، اور محبت کے متوازن اظہار کی۔ اگر والدین سنجیدگی، صبر اور شعور سے بچے کے اس رویے کے پیچھے چھپی اصل ضرورت کو سمجھ لیں تو ضد خود بخود نرم پڑنے لگتی ہے، اور بچہ مکالمہ، اعتماد اور محبت کے راستے پر آ جاتا ہے۔
نفسیات کے مطابق، بچے کا ضدی رویہ اس کے جذباتی نظام میں عدم توازن کی علامت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر ماریا مونٹیسوری کہتی ہیں: A child who is not understood becomes stubborn. (جو بچہ سمجھا نہ جائے، وہ ضدی بن جاتا ہے۔)
ضدی رویہ اکثر خوداعتمادی کی کمی، الجھن، یا عدمِ تحفظ کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر والدین ہر وقت ڈانٹتے رہیں یا بچے کو فیصلوں میں شامل نہ کریں تو وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ضد کو بطورِ ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
اسلام بچوں کی تربیت کو ایک مقدس ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بچوں کے ساتھ شفقت، فہم اور حکمت کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی۔
محبت اور نرمی
نبی کریم ﷺ بچوں سے بےحد محبت فرماتے تھے، انہیں گود میں لیتے، سلام کرتے، ان کی زبان میں بات کرتے۔ ایک بچہ (حضرت حسنؓ) جو ہر وقت آپ کے پاس رہتا، آپ ﷺ نے کبھی اس پر سختی نہیں فرمائی۔
سمجھ داری سے سمجھانا
أكرِموا أولادَكم، وأحسِنوا أدَبَهم، واغفِروا لهم۔ (المعجم الأوسط للطبراني،: 8242)
ترجمہ: اپنے بچوں سے عزت سے پیش آؤ، ان کی اچھی تربیت کرو، اور ان سے درگزر کرو۔
اسلامی تربیت کا بنیادی ستون صبر، ضبطِ نفس، اور نرمی ہے، اور یہ اوصاف صرف زبانی نصیحت سے نہیں بلکہ والدین کے عملی کردار سے بچے کے دل میں منتقل ہوتے ہیں۔ اگر والدین روزمرہ زندگی میں غصے کے مواقع پر تحمل، ضد کے لمحات میں حکمت، اور اشتعال کے موقع پر نرمی کا مظاہرہ کریں، تو بچہ غیر محسوس انداز میں سیکھتا ہے کہ ہر خواہش، ہر مانگ، اور ہر جذبہ فوری طور پر پورا نہیں ہوتا۔
ضد اور بے صبری کا علاج محض روک ٹوک سے نہیں بلکہ مثالی طرزِ عمل سے ہوتا ہے۔ جب بچہ اپنے ماں باپ کو دیکھتا ہے کہ وہ مشکل وقت میں بھی صبر کرتے ہیں، تو وہ سیکھتا ہے کہ کامیابی کا راستہ ضد نہیں بلکہ ضبطِ نفس سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ جذبات کے بہاؤ میں بہنے کے بجائے، اپنے طرزِ عمل سے بچے کے دل میں ایک عملی درس چھوڑیں کہ: زندگی ہر وقت ہماری مرضی سے نہیں چلتی، لیکن صبر سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔" یہی ضبطِ نفس کی حقیقی تعلیم ہے۔
ضدی بچوں کی تربیت محض ایک چیلنج نہیں، بلکہ والدین کے لیے ایک فکری اور تربیتی امتحان ہے، جس میں جذبات، حکمت اور مستقل مزاجی سب کی ضرورت ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ بچوں کے ساتھ شفقت، ان کے احساسات کو سننا، اور ان پر نرمی سے اثر ڈالنا ہی کامیاب تربیت کا راز ہے۔ اگر بچے کی بات بغور سنی جائے، اسے عزت دی جائے، اور اس کی چھوٹی چھوٹی اچھائیوں پر سراہا جائے، تو اس کا دل نرم ہوتا ہے، اور وہ ضد کی بجائے مکالمے پر یقین کرنے لگتا ہے۔
ایسے بچے کو حکم دینے کے بجائے اگر محبت سے مشورے میں شامل کیا جائے، فیصلوں میں اس کی رائے لی جائے، تو وہ خود کو اہم محسوس کرتا ہے، اور بے جا ضد چھوڑ کر شعوری طور پر ذمہ دار بننے لگتا ہے۔ والدین کو یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ ان کا آئینہ ہے؛ اگر وہ خود صبر، ضبطِ نفس اور نرمی کا مظاہرہ کریں گے، تو بچہ بھی انہی صفات کو اپنائے گا۔ ضد کا جواب سختی نہیں، بلکہ وقت، توجہ اور محبت کے امتزاج سے دیا جاتا ہے۔ کامیاب والدین وہی ہوتے ہیں جو بچے کے رویے کے پیچھے چھپی اصل ضرورت کو پہچانیں، اور اس کا علاج ڈانٹ سے نہیں بلکہ دل سے کریں۔
بچوں کی ضد ایک وقتی مسئلہ ہو سکتی ہے، لیکن اگر اس کی جڑوں کو نہ پہچانا جائے تو یہ بچے کی شخصیت اور والدین کے رشتے کو متاثر کر سکتی ہے۔ شرعی تعلیمات اور نفسیاتی تحقیق دونوں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ بچے کو سمجھا جائے، سنا جائے، اور محبت کے ساتھ درست راہ پر لایا جائے۔ ضد کو ختم کرنے کا راستہ سختی نہیں بلکہ حکمت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بچوں کی تربیت میں علم، صبر اور حکمت عطا فرمائے۔ آمین۔