عنوان: | زہد دنیا میں رہ کر دنیا سے بلند ہونا |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
اس مضمون میں اسلامی تصورِ زہد کو قرآن، احادیث، اقوالِ سلف صالحین اور معاصر علما کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم نے اس میں یہ پہلو نمایاں طور پر بیان کیے ہیں:
- زہد کا لغوی و اصطلاحی مفہوم
- زہد کا حقیقی اسلامی تصور یعنی دنیا میں رہ کر دل کو دنیا کی غلامی سے آزاد رکھنا
- نبی کریم ﷺ کی سیرت میں زہد کی عملی شکل
- حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور دیگر سلف کے اقوال
- علامہ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ کا فکری اقتباس اور اس کی توضیح
- زہد کا موجودہ دور میں مفہوم اور اس کی امت کے لیے اہمیت
ہم نے ان تمام نکات کو جامع، اور فکری انداز میں اس لیے پیش کیا ہے تاکہ قاری کے ذہن میں زہد کا کوئی محدود یا صوفیانہ تصور نہ بنے، بلکہ وہ ایک متوازن اور عملیت پسند نظریہ کے طور پر سامنے آئے۔
اسلام ایک ایسا کامل اور جامع دین ہے جو نہ صرف عبادات بلکہ اخلاق، معیشت، سیاست، معاشرت اور روحانیت کے ہر پہلو کو توازن کے ساتھ سمیٹے ہوئے ہے۔ اس دینِ فطرت نے انسان کو نہ تو رہبانیت کا قائل بنایا، نہ دنیا پرستی کا؛ بلکہ اسے زہد کا ایسا پاکیزہ مفہوم عطا کیا جو انسان کو دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کی غلامی سے آزاد کر دیتا ہے۔
علامہ یوسف القرضاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اسلام میں زہد کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دنیا کو ترک کر دیا جائے کہ کافر اور ملحد اس پر قبضہ جما لیں، بلکہ زہد یہ ہے کہ تم اسے اپنے ہاتھ میں رکھو لیکن دل پر قابض نہ ہونے دو! (الصحوة الإسلامية بين الجحود والتطرف، ص: 95، دار الشروق، قاہرہ)
یہ جملہ زہد کی وہ تعبیر پیش کرتا ہے جو قرآن و سنت سے پھوٹتی ہے؛ جس میں دنیا کی نفی نہیں، دنیا کی بندگی کی نفی ہے۔
زہد کا مفہوم: ترک نہیں، ترجیح کا نام
زہد عربی لفظ الزُّهْد سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ہیں: بےرغبت ہونا، ترک کرنا، کم رغبت رکھنا۔ لیکن شریعت کی اصطلاح میں زہد کا مطلب ہے: دنیا سے دل کو بےرغبت رکھنا، خواہ وہ ہاتھ میں موجود ہو۔
یہ وہ توازن ہے جو اسلام نے سکھایا۔ دنیا میں رہنا، دنیا سے کام لینا، لیکن دنیا کو دل میں نہ بٹھانا۔
جیسا کہ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
الزُّهْدُ لَيْسَ أَنْ لا تَمْلِكَ شَيْئًا، وَلٰكِنَّ الزُّهْدَ أَنْ لا يَمْلِكَكَ شَيْءٌ (حلیة الأولیاء، ابو نعیم الاصفہانی، 1/319)
ترجمہ: زہد یہ نہیں کہ تم کسی چیز کے مالک نہ بنو، بلکہ زہد یہ ہے کہ کوئی چیز تمہیں اپنا غلام نہ بنا لے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زہد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی زہد کا سب سے اعلیٰ نمونہ تھی۔ آپ کے گھر میں مہینوں چولہا نہ جلتا، کھجور اور پانی پر گزارہ ہوتا، مگر جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا موقع آتا تو سخاوت کی انتہا کر دیتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ہم پر کبھی ایسا مہینہ نہیں گزرتا تھا جس میں ہم گوشت نہ کھاتے ہوں، اور کبھی ایسا مہینہ نہیں گزرتا تھا جس میں ہم صرف کھجور اور پانی پر گزارا نہ کرتے ہوں۔ البخاری،:2567
یہ زہد کا وہ معیار ہے جو ہمیں دنیا سے بھاگنے کی نہیں، بلکہ دنیا کو استعمال کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ کے احکام کے تابع رہ کر۔
زہد اور امتِ مسلمہ کا فریضہ
اگر مسلمان زہد کو ترکِ دنیا سمجھیں اور دنیاوی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کریں تو وہ دنیا کافروں کے حوالے کر دیں گے۔ پھر وہی ہوگا جو آج ہو رہا ہے: علم، ٹیکنالوجی، معیشت، حکومت۔سب غیر مسلموں کے قبضے میں، اور مسلمان صرف آہ و فغاں میں مصروف۔
قرآن فرماتا ہے:
وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ (القصص:77)
یہ یاددہانی ہے کہ مسلمان کو دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، لیکن اپنی ترجیح آخرت کو بنانا ہے۔
زہد: آج کی دنیا میں کیا مطلب رکھتا ہے؟
زہد یہ ہے کہ آپ کے پاس مال ہو، لیکن آپ اس مال کے غلام نہ ہوں۔ زہد یہ ہے کہ آپ کی گاڑی ہو، مکان ہو، لیکن دل میں اس کی محبت نہ ہو۔ زہد یہ ہے کہ اگر مال جائے، تو دل نہ ٹوٹے، اور اگر مال آئے، تو غرور نہ ہو۔ زہد ایک اندرونی کیفیت ہے، جس کا تعلق کم چیزوں سے نہیں، کم وابستگی سے ہے۔ زاہد وہ نہیں جو دنیا چھوڑے، بلکہ وہ ہے جو دل کو دنیا سے بچا لے
علامہ قرضاوی رحمہ اللہ کا پیغام آج کے ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ دنیا چھوڑ دینا آسان ہے، لیکن دنیا کے درمیان رہ کر دنیا کو دل پر قابض نہ ہونے دینا اصل کامیابی ہے۔
ایسا زہد ہی امت کو وہ قوت دے سکتا ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کی قیادت بھی کرے اور آخرت کی نجات بھی پائے۔